دہلی کی جھگی بستیوں میں انخلا کا بحران

دہلی میں جھگی بستیوں کے ہزاروں غریب خاندان بغیر متبادل رہائش دیے جبری انخلا، بجلی و پانی کی کٹوتی اور بنیادی حقوق کی پامالی کا سامنا کر رہے ہیں۔
بھارت کے دارالحکومت دہلی میں جھگی جھونپڑیوں، غیر رسمی اور غیر منظور شدہ بستیوں میں رہنے والے ہزاروں خاندان ایک سنگین بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ عدالتوں کے احکامات کے تحت ان بستیوں کو منہدم کیا جا رہا ہے اور بجلی، پانی جیسی بنیادی سہولتیں اچانک بند کی جا رہی ہیں۔ یہ صورت حال نہ صرف متاثرہ خاندانوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے بلکہ شہری منصوبہ بندی، انسانی حقوق اور حکومتی پالیسیوں پر بھی سوالات کھڑے کر رہی ہے۔جنوبی دہلی کے خوشحال علاقے وسنت کنج کے قریب واقع جے ہند کیمپ میں تقریباً ایک ہزار جھگیاں قائم ہیں جہاں زیادہ تر مغربی بنگال کے کوچ بہار سے آئے مسلمان مہاجر خاندان رہائش پذیر ہیں۔ یہاں کا ماحول گندگی، تعفن اور گرمی سے بھرا ہوا ہے۔ حالیہ عدالتی حکم کے بعد گزشتہ ہفتے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اس بستی کی بجلی کاٹ دی گئی۔ بستی میں موجود مسجد اور مندر کے ذریعے ہی یہاں کے گھروں میں بجلی پہنچائی جا رہی تھی، کیونکہ کسی بھی رہائشی کے پاس ذاتی کنکشن نہیں ہے۔ بجلی کی کٹوتی نے جھگی والوں کی زندگی مزید دشوار بنا دی ہے۔
کئی رہائشیوں نے اپنا دکھ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ چھوٹے موٹے روزگار سے اپنے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں لیکن بجلی نہ ہونے کے سبب نیند پوری نہیں ہوتی اور کام پر جانا ممکن نہیں رہا۔ خواتین کا کہنا ہے کہ اگر پہلے سے آگاہ کیا جاتا تو وہ متبادل بندوبست کر لیتیں۔ بستی میں ایک چھوٹے بچے کی ماں نے غصے میں کہا، “ہم بھی انسان ہیں، ہمارے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیوں ہو رہا ہے؟”یہ بحران صرف جے ہند کیمپ تک محدود نہیں ہے۔ حالیہ مہینوں میں دہلی کی کئی جھگی بستیوں کو مسمار کیا گیا ہے۔ جنوب مشرقی دہلی کے بے زمین کیمپ میں بھی سینکڑوں جھگیاں گرائی گئیں۔ کچھ افراد کو سرکاری فلیٹ دیے گئے لیکن بہت سے لوگ مناسب دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے بے دخل ہو گئے۔ ایک معمر خاتون، دیپا، جنہوں نے 40 سال اسی بستی میں گزارے، اب ملبے پر جھگی ڈال کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کے مطابق انہوں نے کچھ دستاویزات تیار کیے تھے، لیکن راشن کارڈ نہ بن سکا اور اسی وجہ سے وہ سرکاری سکیم سے باہر رہ گئیں۔
جنہیں سرکاری اپارٹمنٹ دیے گئے، وہ بھی مطمئن نہیں۔ ایک کمرے کے چھوٹے فلیٹ میں آٹھ افراد کا رہنا دشوار ہے۔ صفائی کی حالت خراب ہے اور کئی خاندانوں کو الگ الگ رہنا پڑ رہا ہے کیونکہ ان کے پرانے گھروں میں زیادہ افراد اکٹھے رہ سکتے تھے۔نریلا، جھرودا اور وزیرپور جیسے علاقوں میں بھی جھگی بستیوں کو بغیر متبادل جگہ دیے گرایا گیا۔ وزیرپور کی بستی، جو دہائیوں پرانی اور سرکاری فہرست میں شامل تھی، اسے بھی بغیر بازآبادکاری کے منہدم کر دیا گیا۔ یہاں رہنے والی ہیرا دیوی کہتی ہیں کہ ان کی شادی سے لے کر بچوں کی تعلیم تک سب اسی بستی میں ہوئی، اور اب حکومت نے انہیں بے گھر کر دیا۔ ان کا سوال تھا، “ہم اپنے بچوں کو کہاں رکھیں؟ اسکول والے روز فون کرتے ہیں۔”دہلی میں موجود تقریباً 6000 جھگی بستیوں میں سے صرف 675 کو سرکاری تحفظ حاصل ہے۔ یہ وہ بستیاں ہیں جو 2006 سے پہلے قائم ہوئی تھیں۔ لیکن اب ان فہرست شدہ بستیوں کو بھی گرایا جا رہا ہے، جو دہلی حکومت کی پالیسی کی خلاف ورزی ہے۔ قانون کے مطابق، 2015 سے پہلے بستی میں مقیم افراد کو ہٹانے سے پہلے متبادل دیا جانا ضروری ہے، بشرطیکہ ان کے پاس ووٹر آئی ڈی یا راشن کارڈ ہو۔ مگر ان دستاویزات کی عدم دستیابی یا بندش کی وجہ سے ہزاروں لوگ اس حق سے محروم ہو گئے ہیں۔
ماہر قانون عنوپردھا سنگھ کہتی ہیں کہ جو لوگ دستاویزات نہیں رکھتے، وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں۔ ان کے مطابق، 2012 میں دہلی میں چھ ہزار سے زیادہ جھگی بستیاں تھیں، مگر صرف چند سو کو ہی قانونی تحفظ حاصل ہے۔ حکومت جب چاہے باقی بستیوں کو گرا سکتی ہے، چاہے متاثرین کے پاس رہنے کی کوئی اور جگہ ہو یا نہ ہو۔پچھلی دہائی میں حکومت کی جانب سے ’جہاں جھگی، وہاں مکان‘ کا نعرہ لگایا گیا تھا۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ جھگیوں کی جگہ فلیٹ کم، اور ملبہ زیادہ دکھائی دے رہا ہے۔ دہلی کے سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے حالیہ مظاہرے میں کہا کہ حکومت لوگوں کو سڑکوں پر رہنے پر مجبور کر رہی ہے، جب کہ بی جے پی کی قیادت والی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ عدالتوں کے حکم پر عمل کر رہی ہے۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ حکومت غریبوں کے خوابوں کو کچل رہی ہے۔جے ہند کیمپ کے اندھیرے سے لے کر وزیر پور کے ملبے تک، دہلی کی جھگی بستیوں میں رہنے والے افراد اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا انسانی بحران ہے جسے سیاسی وعدوں یا قانونی کارروائیوں سے نہیں، بلکہ سنجیدہ سماجی ذمے داری اور انصاف پر مبنی پالیسی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا دہلی اپنے سب سے پسماندہ شہریوں کو باعزت زندگی دے پائے گی یا ان کا مقدر صرف بے دخل ہی رہے گا؟