روسی تیل کے سبب بھارت کی ریفائنریوں کو عالمی منڈی میں جھٹکا

یورپی یونین کی روسی توانائی پر پابندیوں سے بھارت کی بڑی ریفائنری کمپنیاں، خصوصاً نایرا اور ریلائنس، یورپی منڈی سے باہر ہونے کے خطرے سے دوچار۔
یورپی یونین نے روس کے توانائی شعبے پر تازہ پابندیاں عائد کر دی ہیں جن کی زد میں بھارت کی ریاست گجرات میں واقع ایک بڑی ریفائنری بھی آ گئی ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت پر ہوا ہے جب امریکی کانگریس میں روس سے تیل خریدنے والے ممالک پر سخت اقدامات کی تجاویز زیرِ غور ہیں۔ کچھ امریکی سینیٹرز بھارت پر 500 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے بل پر کام کر رہے ہیں جو روسی تیل کی خریداری کے ردعمل میں ہوگا۔نیٹو کے سربراہ مارک رُٹے نے حال ہی میں چین، برازیل اور بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ روس پر یوکرین جنگ ختم کرنے کا دباؤ ڈالیں، بصورتِ دیگر انھیں امریکی پابندیوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔انگریزی اخبار اکانومک ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ ان پابندیوں سے بھارت کی نایرا انرجی کو سب سے بڑا دھچکہ لگے گا، کیوں کہ اس میں روسی کمپنی روزنیفٹ کی 49 فیصد شراکت ہے۔ تاہم، ریلائنس انڈسٹریز کے لیے بھی یہ صورتحال مشکل پیدا کر سکتی ہے کیوں کہ وہ روسی خام تیل کو ریفائن کر کے یورپ میں فروخت کرتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان دونوں کمپنیوں کے لیے یورپی مارکیٹ سے باہر نکالے جانے کا خطرہ موجود ہے۔
پہلے یہ اطلاعات تھیں کہ روزنیفٹ نایرا انرجی میں اپنی حصص فروخت کرنا چاہتی ہے، لیکن پابندیوں کے بعد یہ ممکنہ سودا پیچیدگی کا شکار ہو گیا ہے۔ ریلائنس اور نایرا دونوں بھارت کی بڑی ایندھن برآمدی کمپنیاں ہیں۔ ریلائنس نے روزنیفٹ کے ساتھ سستے خام تیل کی خریداری کے لیے معاہدہ کیا تھا۔ اب اس کے پاس دو مشکل راستے ہیں: یا تو روس سے تیل خریدنا بند کرے یا یورپی مارکیٹ چھوڑ دے۔ دونوں صورتوں میں اس کی آمدنی متاثر ہو سکتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکار کی طرف سے واضح معلومات نہ ہونے کی وجہ سے یہ کہنا ممکن نہیں کہ کون کون سی کمپنیاں روس سے کتنا تیل خرید رہی ہیں۔ نایرا کا نام اس لیے لیا جا رہا ہے کیوں کہ اس میں روسی سرمایہ کاری ہے، لیکن دوسرے نجی ادارے بھی اس تجارت میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ ابھی تک یہ تفصیلات منظرِ عام پر نہیں آئیں کہ روسی خام تیل بھارت میں ریفائن ہو کر کتنی مقدار میں کہاں برآمد ہو رہا تھا۔
بلوم برگ کے مطابق، 2024 کے جون تک روس سے سمندری راستے سے برآمد ہونے والا 80 فیصد خام تیل بھارت پہنچا، جس میں سے 45 فیصد کا حصہ صرف ریلائنس اور نایرا کا تھا۔ یہ بھی تسلیم کیا جا رہا ہے کہ بڑی مقدار میں یہ تیل بھارت میں ریفائن ہو کر یورپ جا رہا تھا، لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپی پابندیاں فوری طور پر نافذ ہو گئی ہیں اور اب بھارت سے ریفائن شدہ روسی تیل یورپ کو برآمد نہیں کیا جا سکے گا۔ چوں کہ بھارت کا تقریباً ایک تہائی تیل روس سے آتا تھا، اس لیے اس پابندی سے برآمدات پر براہِ راست اثر پڑے گا۔بلوم برگ اور ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹس کے مطابق، روزنیفٹ نایرا میں اپنے حصص ریلائنس کو فروخت کرنا چاہتی تھی، لیکن اب ریلائنس کے لیے اپنی ایک مدمقابل کمپنی میں سرمایہ کاری یورپی مارکیٹ کے خطرے کی وجہ سے ممکن نظر نہیں آتی۔ نایرا کی ریفائنری کی پیداواری صلاحیت چار لاکھ بیرل روزانہ ہے اور بھارت بھر میں اس کے تقریباً 7000 فیول اسٹیشن موجود ہیں۔ کمپنی ریفائنری کے قریب ایک پیٹروکیمیکل پلانٹ بھی بنا رہی ہے۔ دوسری طرف ریلائنس کی جمانگر ریفائنری دنیا کی سب سے بڑی ریفائننگ تنصیب ہے۔
اس تمام صورتحال پر نایرا یا ریلائنس نے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا، البتہ بھارت کی وزارت خارجہ نے یورپی یونین کی نئی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کسی بھی یکطرفہ پابندی کو تسلیم نہیں کرتا۔ وزارت خارجہ نے کہا کہ توانائی شہریوں کی بنیادی ضرورت ہے اور اس معاملے میں دہرا معیار اختیار نہیں کیا جانا چاہیے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت صرف مخالفت کر سکتا ہے، لیکن اس کے پاس اختیار محدود ہیں کیونکہ یورپ مسلسل بھارتی مصنوعات کے لیے اپنی منڈی بند کر رہا ہے۔ یہی صورتحال پہلے اسٹیل برآمدات میں بھی دیکھی جا چکی ہے۔بلوم برگ نے مقامی میڈیا کے حوالے سے لکھا ہے کہ روزنیفٹ بھارت سے اس لیے نکلنا چاہتی ہے کیوں کہ وہ پابندیوں کی وجہ سے اپنی آمدنی واپس روس منتقل نہیں کر پا رہی۔ رپورٹ کے مطابق، روزنیفٹ آرامکو سمیت کئی خریداروں سے مذاکرات کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ روزنیفٹ اور اس کے شراکت داروں نے 2017 میں ایسار گروپ سے نایرا کو 12.9 ارب ڈالر میں خریدا تھا۔اب یورپی یونین نے تیسرے ممالک کے ذریعے روسی تیل کی درآمد پر بھی پابندی عائد کر دی ہے، جس سے بھارت کا یورپ کو پیٹرولیم مصنوعات کی برآمد متاثر ہونا طے ہے۔ کیپلر کے مطابق، 2023 میں بھارت سے یورپی یونین کو ریفائن شدہ ایندھن کی برآمد پچھلے سال کے مقابلے میں دوگنی ہو چکی تھی، اور روزانہ اوسطاً دو لاکھ بیرل سے زیادہ برآمد کیا جا رہا تھا۔ اب یہ تعداد نمایاں طور پر کم ہو سکتی ہے۔