ادب سرائے

دیوالی

محمد صالح

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد

دیوالی آنے والی ہے، شہر کو روشنی سے نہلانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ نیتا منتری سب اپنی بھر پور کوشش میں ہیں کہ زیادہ سے زیادہ دیے وہ دیے خرید سکیں، تاکہ اُن کے گھر کے آگے پانچ سال تک روشنی ہی روشنی ہو۔ کمہاروں کو تلاش کیا جا رہا ہے۔ آس پاس کے دیوں کو اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ جو دیے کم پڑ رہے تھے کمہاروں کو پیسے دے کر خریدنے کی تیاری شروع ہونے لگی۔ ہر نیتا یہی کوشش کرتا کہ کمہار اس سے زیادہ منافع لے کر انھیں اپنے دیے دے۔ ہر کمہار اپنے دیے اپنے فائدے کے مطابق بیچنے کو تیار ہے۔ جس کے دیے جتنے زیادہ اس کو اتنی زیادہ قیمت مل رہی تھی۔

آخر کار دیوالی کی شام آ گئی۔ کمہاروں نے سارے دیے گن گن کر دفتر کے سامنے کھڑے کر دیے۔ سارے کمہاروں نے سب کچھ داؤں پر لگا کر دیے جمع کیے۔ ٹھوک پٹخ کر دیکھا بھی۔ جس دیے پر شک ہوا اس کو لائن سے باہر کر دیا۔ کئی ایسے دیے تھے جن کو کمہار کی لاکھ کوشش کے باوجود دفتر تک نہیں لایا جا سکا۔ کیونکہ داروغہ کے مطابق وہ سب دیے اس کے مالک کی چوکھٹ پر بیٹھنے والے نہیں تھے۔ اُن میں کج ادائی تھی۔ انھیں شک تھا یہ دیے چوکھٹ تک آتے آتے پھسل سکتے ہیں یا کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہیں۔

بہر حال داروغہ جی کے من موافق دیے چوکھٹ پر لگا دیے گئے۔ سب کو ٹھوک بجا کر دیکھا۔ حالات کا جائزہ لیا۔ تیل ڈال کر مٹی کے دیوں کو جلا دیا گیا۔ رات روشنی سے جگمگا اٹھی، آسمان میں دیوں کی روشنی پھیل گئی اور بادشاہ سلامت کا چہرہ شفق کی طرح چمکنے لگا۔ یہ منظر دیکھ کر بادشاہ بہُت خوش ہوا۔ داروغہ کی کامیاب جانچ پڑتال اور روک ٹوک نے کام کو آسان بنا دیا۔ بادشاہ سلامت نے داروغہ کو انعام سے نوازا۔ اس کے عہدے کو بڑھا دیا، اس کا مرتبہ بلند ہوا اور اس کے ساتھیوں میں اس کی شان سب سے اعلیٰ ہو گئی۔

رات بھر چمک دمک اور انتظام دیکھنے کے بعد بادشاہ تھک گیا تھا۔ اب وہ آرام کے لیے اپنی آرام گاہ چلا گیا۔ صبح ہوئی تو منظر بدلا تھا۔ وہ آگ جس نے بادشاہ کی شان میں اضافہ کیا بجھ چکی تھی، بادشاہی کا علم بلند ہو چکا تھا۔ بادشاہ اور خوش ہوا۔ اس جوش میں وہ زمین پر پڑے دیے کو کچلتا اور آگے بڑھتا۔ گویا وہ یہ احساس دلا رہا تھا کہ تم دیے ہی ہو۔ زمین پر کچلے جانے کے لیے۔ تمھاری اس سے زیادہ کوئی اوقات نہیں ہے۔ حد تو تب ہو گئی۔ جب کمہاروں کو دھکے مار کر گھر سے نکالا گیا۔ انھیں ان کی اصل اوقات یاد دلائی گئی۔ انھیں دیوں میں بچے تیل تک جمع کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ صرف اس لیے کہ کہیں دنیا کو یہ بات پتہ نہ چل جائے کہ جن دیوں کے بل پر بادشاہ چمک رہا ہے اور اب اُن کو اپنے پیروں سے اور گاڑیوں سے کچل رہا ہے۔ اُن کو لانے والے، اکٹھا کرنے والے اور بادشاہ کی چوکھٹ پر سجانے والے يہی لوگ ہیں۔

بادشاہ نشے میں چور کسی کی سننے کو تیار نہیں۔ کتنے دیے کچلے جائیں اور کتنے کمہار غائب ہو جائیں اُن کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اُن کا علم بلند رہے یہی بادشاہ کی مرضی ہے۔ اسی کے لیے دیے بجائے جاتے ہیں، اور اُن کے مالک یعنی کمہار اسی کے لیے ان سب کا سودا کرتے ہیں۔

اب ہر دن دیے ٹوٹتے رہیں، کمہار بھوک، افلاس اور غریبی سے مرتے رہیں۔ اب بادشاہ کو ان سے کوئی لینا نہیں ہے۔ بادشاہ انھیں پھر سے اگلی دیوالی پر تلاش کریں گے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

ادب سرائے

ممتاز نیر : شخصیت اور شاعری( شعری مجموعہ ‘ وفا کے پھول ‘ کے تناظر میں )

احسان قاسمی کچھ لوگ ملٹی وٹامن ملٹی مِنرل کیپسول جیسے ہوتے ہیں ۔ بظاہر ایک کیپسول ۔۔۔۔ لیکن اگر اس
ادب سرائے

مظفر ابدالی كی شاعری پر ایك نظر(صفر سے صفر تك كے حوالے سے)

وسیمہ اختر ریسرچ اسكالر:شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی اردو شاعری کا سفر کئی صدیوں سے جاری ہے جس میں