بہار میں ووٹر لسٹ کی جانچ پر تنازع، اپوزیشن نے ووٹ بندی کا الزام لگایا

بہار میں ووٹر لسٹ کی جانچ پر اپوزیشن نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ لاکھوں لوگ ووٹ کے حق سے محروم ہو سکتے ہیں، الیکشن کمیشن کی بلائی گئی میٹنگ میں صرف دو جماعتیں شریک ہوئیں۔
نئی دہلی۔جیسے جیسے بہار اسمبلی انتخابات قریب آ رہے ہیں، ویسے ویسے سیاسی جماعتوں کے درمیان الزام تراشی کا سلسلہ بھی تیز ہوتا جا رہا ہے۔ ایک جانب الیکشن کمیشن ووٹر لسٹ کی جانچ پڑتال میں مصروف ہے، تو دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں اسے عوام کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی سازش قرار دے رہی ہیں۔بدھ کے روز انڈیا بلاک کی مختلف جماعتوں کے 11 رہنماؤں نے الیکشن کمیشن سے ملاقات کی اور دعویٰ کیا کہ بہار کے لاکھوں لوگوں کو ووٹر لسٹ سے نکالنے کی تیاری کی جا رہی ہے، جسے وہ ’ووٹ بندی‘ کا نام دے رہے ہیں۔
صرف دو پارٹیاں الیکشن کمیشن کی میٹنگ میں پہنچیں
الیکشن کمیشن نے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر 30 جون کو 10 بڑی سیاسی جماعتوں کو 2 جولائی کی شام 5 بجے بات چیت کے لیے مدعو کیا تھا، مگر مقررہ وقت پر صرف دو جماعتوں کے نمائندے ہی پہنچے۔ کمیشن نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ سنجیدگی کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
جن جماعتوں کو بلایا گیا تھا:
انڈین نیشنل کانگریس
آل انڈیا ترنمول کانگریس
راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی)
سماج وادی پارٹی
دراوڑ مُنیتر کڑگم (DMK)
نیشنلسٹ کانگریس پارٹی – شرد پوار گروپ
جھارکھنڈ مکتی مورچہ
بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی (مارکسی)
بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی (مارکسی-لینن وادی) لبریشن
بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی
کمیشن کی ناراضگی
الیکشن کمیشن کے مطابق صرف سی پی آئی اور سی پی آئی (ایم ایل) لبریشن کے سربراہان ہی ذاتی طور پر میٹنگ میں شریک ہوئے، جب کہ دیگر جماعتوں نے نمائندے بھیجے تھے، جن میں سے کچھ کو متعلقہ جماعتوں کی باضابطہ منظوری بھی حاصل نہیں تھی۔
ووٹر شناختی دستاویزات پر اعتراض
اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ووٹر لسٹ میں نام برقرار رکھنے کے لیے جن 11 دستاویزات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، وہ ریاست کے بیشتر شہریوں، خاص طور پر مزدور طبقے اور دوسرے صوبوں میں کام کرنے والوں کے پاس نہیں ہیں۔ اس وجہ سے انھیں ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے۔
جواب سے مطمئن نہیں
سی پی آئی (ایم ایل) لبریشن کے جنرل سیکرٹری دیپانکر بھٹّاچاریہ نے ملاقات کے بعد کہا کہ کمیشن کی جانب سے کسی بھی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا، جس سے ان کی تشویش مزید بڑھ گئی ہے۔