علی پوردوار کالج کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا فیصلہ

علی پوردوار کالج کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا فیصلہ: کیا اسلام پور کالج کے لیے بھی یہی ممکن نہیں؟
محمد شہباز عالم مصباحی
ایڈیٹر ان چیف النور ٹائمز
مغربی بنگال حکومت نے علی پوردوار کالج کو علی پوردوار یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا، جو کہ بلاشبہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی توسیع ہمیشہ ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے، اور کسی بھی خطے کی علمی و تعلیمی ترقی کے لیے مقامی سطح پر یونیورسٹی کا قیام ایک بنیادی ضرورت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسلام پور کالج (واقع اسلام پور، ضلع اتر دیناج پور، مغربی بنگال) بھی اسی توجہ کا مستحق نہیں؟ کیا ہمیں اس کے لیے ایک منظم اور مضبوط تحریک نہیں چلانی چاہیے؟ کیا مغربی بنگال حکومت سے اس کا مطالبہ نہیں ہونا چاہیے؟
علی پوردوار میں یونیورسٹی، لیکن اسلام پور کیوں محروم؟
علی پوردوار کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کا فیصلہ اس وقت اور بھی دلچسپ معلوم ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ کوچ بہار میں پہلے ہی سے ایک فعال اسٹیٹ یونیورسٹی موجود ہے، جبکہ علی پوردوار اور کوچ بہار کے درمیان محض 23 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اس کے برعکس، اسلام پور اور نارتھ بنگال یونیورسٹی (سلی گوڑی) کے درمیان تقریباً 67 کلومیٹر کا فاصلہ ہے، جس کی وجہ سے یہاں کے طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے۔
یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلام پور تعلیمی لحاظ سے پہلے ہی سے پسماندہ علاقہ ہے۔ جسٹس سچر کمیٹی رپورٹ سمیت دیگر تحقیقاتی رپورٹس نے بھی اس علاقے کی تعلیمی محرومی کو اجاگر کیا ہے۔ اگر حکومت واقعی ہماری تعلیمی ترقی کے بارے میں سنجیدہ ہوتی، تو اسلام پور کالج کو بھی یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا فرمان جاری کرتی۔
اسلام پور یونیورسٹی کا مطالبہ کیوں ضروری ہے؟
ہمیں نہ صرف اسلام پور کالج کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے، بلکہ گوال پوکھر اور دیگر ضرورت مند علاقوں میں مزید کالجز کے قیام کے لیے بھی تحریک چلانی چاہیے۔ اگر اسلام پور یونیورسٹی قائم ہو جائے تو آس پاس کے تمام کالجز کو اس سے منسلک کیا جا سکتا ہے، جس سے تعلیمی سہولتوں میں بے پناہ اضافہ ہوگا اور یہاں کے طلبہ کو جدید تعلیمی مواقع حاصل ہوں گے۔
کیا مغربی بنگال حکومت اقلیتی علاقوں کے ساتھ ناانصافی کر رہی ہے؟
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ علی پوردوار یونیورسٹی کے قیام کا فیصلہ ایک ایسے علاقے میں کیا گیا جہاں 23 کلومیٹر کے فاصلے پر پہلے ہی سے ایک یونیورسٹی موجود تھی، جبکہ اسلام پور جیسے اقلیت اکثریتی علاقے کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹی ایم سی سمیت ہر سیاسی جماعت اقلیتوں سے صرف ووٹ لینا جانتی ہے، لیکن انہیں تعلیمی میدان میں ترقی دینے سے ہمیشہ گریز کرتی ہے۔ یہ پالیسیاں صرف اسلام پور ہی کے ساتھ نہیں، بلکہ پورے ملک کے اقلیتی علاقوں کے ساتھ برتی جا رہی ہیں، تاکہ اقلیتیں تعلیمی لحاظ سے پسماندہ رہیں اور سیاسی جماعتیں ان کا فائدہ اٹھاتی رہیں۔
تعلیم کے بغیر اقلیتوں کی ترقی ممکن نہیں:
یہ حقیقت ہمیں کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ تعلیم کے بغیر کوئی بھی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ اگر ہم واقعی اپنی نسلوں کا مستقبل سنوارنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اسلام پور میں یونیورسٹی کے قیام کے لیے منظم، مستقل اور زور دار تحریک چلانی ہوگی۔ ہمیں حکومت کو یہ باور کرانا ہوگا کہ تعلیمی ترقی ہر شہری کا حق ہے، اور اقلیتی علاقوں کو جان بوجھ کر اس حق سے محروم رکھنا ایک بڑی نا انصافی ہے۔
اسلام پور کالج کو اسلام پور یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کے فوائد:
اگر اسلام پور کالج کو اسلام پور یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا جائے تو اس کے بے شمار تعلیمی، سماجی اور معاشی فوائد ہوں گے۔ درج ذیل نکات اس مطالبے کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں:
- اعلیٰ تعلیم کے مواقع میں اضافہ:
اسلام پور اور آس پاس کے علاقوں کے طلبہ کو اپنے ہی علاقے میں یونیورسٹی سطح کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا، جس کے لیے انہیں سلی گوڑی، کولکاتا یا دیگر شہروں کا رخ نہیں کرنا پڑے گا۔
غریب اور متوسط طبقے کے طلبہ جو دور دراز کے شہروں میں جا کر تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں، ان کے لیے اعلیٰ تعلیم زیادہ آسان اور سستی ہو جائے گی۔
- تعلیمی معیار میں بہتری:
یونیورسٹی کا قیام جدید تعلیمی نصاب، تحقیقی سرگرمیوں، اور معیاری تدریسی سہولیات کے فروغ میں مدد دے گا۔
یہاں کے طلبہ کو بھی دیگر بڑے تعلیمی اداروں کے مساوی لائبریری، لیبارٹری، ڈیجیٹل لرننگ، اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ تعلیمی ماحول میسر آئے گا۔
- نئی فیکلٹیز اور کورسز کی دستیابی:
اسلام پور کالج میں محدود کورسز پڑھائے جاتے ہیں، لیکن اگر اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے تو یہاں سائنس، ٹیکنالوجی، مینجمنٹ، میڈیکل، فارمیسی، قانون، سوشیالوجی، اسلامیات، عربی، فارسی اور دیگر جدید مضامین کے کورسز متعارف کروائے جا سکتے ہیں۔
طلبہ کو ماسٹرز، ایم فل، اور پی ایچ ڈی کے مواقع بھی دستیاب ہوں گے، جس سے انہیں اپنے ہی علاقے میں تحقیق کے بہترین مواقع مل سکیں گے۔
- علاقائی ترقی اور روزگار کے مواقع:
یونیورسٹی کا قیام نئے ملازمت کے مواقع پیدا کرے گا، جس میں تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی بڑی تعداد کو روزگار ملے گا۔
نئے کالجز کے قیام اور یونیورسٹی سے منسلک اداروں کے ذریعے تعلیم کا دائرہ مزید وسیع ہو گا اور مقامی افراد کے لیے نوکریوں کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
طلبہ کے لیے کیمپس پلیسمنٹ اور انڈسٹریل لنکیجز سے اچھی ملازمتوں کے امکانات بڑھیں گے۔
- اقلیتی طبقے کے تعلیمی حالات میں بہتری:
اسلام پور ایک کثیر اقلیتی مسلم علاقہ ہے اور سچر کمیٹی کی رپورٹ میں واضح طور پر مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو اجاگر کیا گیا ہے۔
یونیورسٹی کے قیام سے اقلیتی طبقے کی تعلیمی ترقی کو فروغ ملے گا، جو ان کی سماجی اور معاشی بہتری کے لیے نہایت ضروری ہے۔
- ہجرت اور مالی اخراجات میں کمی:
اسلام پور کے طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے دوسرے شہروں میں جا کر مہنگی تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
علاقے کے لوگوں کا رہائشی، سفری، اور دیگر اضافی اخراجات کم ہوں گے، جس سے غریب اور متوسط طبقے کو زیادہ فائدہ ہوگا۔
- نئے کالجز اور تحقیقی اداروں کا قیام:
اسلام پور یونیورسٹی بننے سے حکومت پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ گوال پوکھر اور دیگر علاقوں میں مزید کالجز قائم کرے، جو اس یونیورسٹی سے الحاق شدہ ہوں۔
یونیورسٹی کے تحت تحقیقی مراکز، تکنیکی انسٹی ٹیوٹ، اور ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز کا قیام بھی ممکن ہوگا۔
نتیجہ: ہمیں اسلام پور یونیورسٹی کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے!
اسلام پور میں یونیورسٹی کے قیام کے بے شمار فوائد ہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام، تعلیمی ماہرین، سماجی کارکنان، اور سیاستدان مل کر حکومت پر دباؤ ڈالیں۔ اگر علی پوردوار میں یونیورسٹی قائم ہو سکتی ہے تو اسلام پور، جو تعلیمی لحاظ سے زیادہ پسماندہ اور ضرورت مند ہے، وہاں بھی یونیورسٹی ضرور قائم ہونی چاہیے!
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خاموشی توڑیں اور متحد ہو کر اسلام پور یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ کریں۔ اگر آج ہم نے آواز نہ اٹھائی، تو شاید آنے والی نسلیں بھی اسی تعلیمی پسماندگی کا شکار رہیں گی جس کا سامنا ہم آج کر رہے ہیں۔