ترکی میں بغاوت یا سچ کی سزا؟ صحافیوں کی گرفتاری پر ہنگامہ

ترکی میں حکومت مخالف مظاہروں کی کوریج کرنے پر 10 سے زائد صحافی گرفتار، سوشل میڈیا پر سخت پابندیاں عائد۔ آزادیٔ صحافت پر بڑھتے دباؤ کے خلاف عالمی سطح پر مذمت جاری۔
ترکی میں حالیہ برسوں کے دوران صحافتی آزادی کو شدید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ استنبول میں حکومت مخالف مظاہروں کی کوریج کرنے والے کم از کم 10 صحافیوں کو گرفتار کر لیا گیا، جس سے آزادی اظہار پر دباؤ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ان گرفتاریوں نے حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات پر تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔
استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو کی بدعنوانی کے الزامات میں گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا، جس کے نتیجے میں 1,110 سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا۔ امام اوغلو نے اپنے خلاف الزامات کو سیاسی قرار دیا، جب کہ صدر رجب طیب اردوغان نے ان کے دعوے کی تردید کی۔ انھیں ایک ہائی سیکیورٹی جیل منتقل کیا گیا اور اسی روز انھیں ترکی کی مرکزی اپوزیشن جماعت ’’ریپبلکن پیپلز پارٹی‘‘ نے صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ آئندہ انتخابات میں انھیں اردوغان کا سب سے بڑا حریف تصور کیا جا رہا ہے، جب کہ قبل از وقت انتخابات کے امکانات بھی زیر بحث ہیں۔
گرفتار ہونے والے زیادہ تر صحافی فوٹوگرافر تھے، جن میں سے سات پر عوامی اجتماعات کے قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے گئے اور انھیں حراست میں بھیج دیا گیا۔ صحافتی تنظیم ’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ کے مطابق مظاہروں کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو نشانہ بنایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ عدلیہ کو آزادی صحافت کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
احتجاج کے دوران پولیس نے آنسو گیس اور پانی کی توپوں کا استعمال کیا، جب کہ کئی صحافیوں کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ ایک کیمرہ مین پر حملے کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس کے اسپرے کے باعث وہ بولنے سے قاصر ہو گیا۔
اس دوران ترکی میں کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، جیسے ایکس، ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور یوٹیوب تک رسائی محدود کر دی گئی، جب کہ حکومت نے سینکڑوں اکاؤنٹس بند کرنے کا بھی دباؤ ڈالا۔ ایکس کی عالمی حکومتی امور کی ٹیم نے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیا، تاہم حکومت کے دباؤ پر ایکس نے کئی اکاؤنٹس معطل بھی کیے، جس پر اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
ترکی کے میڈیا ریگولیٹر’آر ٹی یو کے‘ نے حکومت مخالف میڈیا کو تنبیہ کی کہ اگر انھوں نے مظاہروں کی کوریج جاری رکھی تو ان کے لائسنس منسوخ کیے جا سکتے ہیں۔ ترکی میں حکومت کا روایتی میڈیا پر مکمل کنٹرول ہے، جب کہ آزاد میڈیا کو سخت سینسرشپ، قانونی دباؤ اور مختلف پابندیوں کا سامنا ہے۔
استنبول میں جاری احتجاج کی میڈیا کوریج نہ ہونے سے 2013 کے ’’گیزی پارک‘‘ مظاہروں کی یاد تازہ ہو گئی، جب حکومت کے دباؤ پر بڑے میڈیا ہاؤسز نے مظاہروں کو نشر کرنے کے بجائے متبادل پروگرام نشر کیے تھے۔
اپوزیشن نے حکومت نواز میڈیا کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ادارے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے حکومت کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ اپوزیشن رہنما اوزگور اوزل نے میڈیا چینلز پر زور دیا کہ وہ عوامی مظاہروں کو نظر انداز نہ کریں، بصورت دیگر عوام ان کا مکمل بائیکاٹ کرے گی۔
’’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘‘کے مطابق اگر ترکی میں میڈیا بڑے عوامی احتجاج پر بھی خاموش رہے، تو یہ واضح ثبوت ہے کہ ملک میں آزاد صحافت دم توڑ رہی ہے اور حکومت ناقدین کو خاموش کرانے کے لیے ہر ممکن دباؤ ڈال رہی ہے۔