برہم پتر کے پانی پر چین کی ممکنہ چالیں اور پاکستان کی دھمکی

پاکستان کی دھمکی پر ماہرین نے واضح کیا کہ چین برہم پتر کا محدود حصہ کنٹرول کرتا ہے اور اگر وہ پانی روکے بھی تو بھارت کو بڑا نقصان نہیں ہوگا۔
حالیہ دنوں میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بعد پاکستان نے ردعمل کے طور پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ چین بھی دریائے برہم پتر کا پانی روک سکتا ہے۔ اس بیان کو ہندوستانی حلقوں میں ایک غیر سنجیدہ دھمکی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، اور اس پر ملک کی جانب سے سخت ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ تاہم اس پوری صورتِ حال نے ایک اہم سوال کو جنم دیا ہے کہ آیا چین واقعی دریائے برہم پتر کا بہاؤ روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے اثرات ہندوستان کے شمال مشرقی خطے پر کیا مرتب ہو سکتے ہیں؟ماہرین کے مطابق چین تبت کے سرحدی علاقے میں ایک وسیع پن بجلی منصوبے پر کام کر رہا ہے جس کی لاگت تقریباً 137 ارب امریکی ڈالر بتائی جا رہی ہے۔ یہ ڈیم ایک ایسے مقام پر تعمیر ہو رہا ہے جہاں برہم پتر ندی ہمالیہ کے پہاڑوں میں مڑ کر ہندوستان میں داخل ہوتی ہے۔ بعد ازاں یہ ندی اروناچل پردیش اور آسام سے گزرتی ہوئی بنگلہ دیش کی سرزمین میں شامل ہو جاتی ہے۔
ماحولیاتی اور تزویراتی تجزیہ کاروں کی رائے میں اگرچہ اس ڈیم کی تعمیر سے چین کو پانی کے بہاؤ پر کچھ کنٹرول حاصل ہو سکتا ہے، خاص طور پر خشک سالی یا سیلاب کے مواقع پر، لیکن یہ اثر محدود ہوگا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ برہم پتر کا تقریباً 70 فیصد پانی ہندوستانی سرزمین سے آتا ہے، جبکہ چین کے حصے میں صرف 25 سے 30 فیصد بہاؤ آتا ہے۔ باقی تقریباً 10 فیصد یا اس سے بھی کم حصہ بنگلہ دیش میں بہتا ہے۔
چین کا دعویٰ ہے کہ یہ منصوبہ صرف پن بجلی کی پیداوار کے لیے ہے اور وہ ندی کے قدرتی بہاؤ کو موڑنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے وعدوں پر مکمل بھروسا نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ پانی ایک تزویراتی ہتھیار بن چکا ہے، خاص طور پر ان ممالک کے درمیان جہاں سرحدی تناؤ پایا جاتا ہو۔اس معاملے پر آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما کا کہنا ہے کہ پاکستان کا واویلا بے بنیاد ہے۔ ان کے مطابق برہم پتر کا زیادہ تر پانی بھارت کے اندرونی علاقوں سے آتا ہے اور اگر چین بہاؤ میں کمی بھی کرے تو اس سے آسام کو اتنا نقصان نہیں ہوگا جتنا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ بلکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل سیلاب کی شدت کو کم کرنے میں مفید بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ برہم پتر ہر سال آسام میں شدید تباہی مچاتی ہے۔واضح رہے کہ برہم پتر ندی نہ صرف آسام بلکہ پورے شمال مشرقی بھارت کی اقتصادیات، زراعت اور ماہی گیری کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ندی آخرکار بنگلہ دیش میں گنگا کے ساتھ مل کر دنیا کا سب سے زرخیز ڈیلٹا بناتی ہے، جو کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو سہارا دیتا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ اگرچہ پاکستان کی طرف سے چین کی مدد کا عندیہ ایک سیاسی چال ہو سکتا ہے، لیکن موجودہ حالات میں چین کے اقدامات اور ان کے ممکنہ اثرات پر گہری نظر رکھنا ہندوستان کے لیے ضروری ہے۔