ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان

بھارت میں آئندہ مردم شماری میں پہلی بار ذات کی بنیاد پر تفصیلات جمع کی جائیں گی، جسے سیاسی، سماجی اور انتخابی منظرنامے میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ سمجھا جا رہا ہے۔
بھارت کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ مردم شماری میں شہریوں کی ذات سے متعلق تفصیلات بھی درج کی جائیں گی۔ اس فیصلے کو وزیر داخلہ امیت شاہ نے “تاریخی” قرار دیا ہے، جب کہ اپوزیشن کی جانب سے بھی اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ یہ عمل ایک طے شدہ مدت میں مکمل کیا جائے تاکہ اس کے نتائج بر وقت عوام کے سامنے آ سکیں۔
آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا جب ملک گیر سطح پر ذات کی بنیاد پر مردم شماری کی جائے گی۔ اس سے قبل انگریز حکومت کے دور میں ایک بار ایسا کیا گیا تھا، مگر آزاد بھارت میں یہ روایت ختم ہو چکی تھی۔ حالیہ برسوں میں کانگریس کے رہنما راہل گاندھی مسلسل یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ ملک میں موجود ذات پات کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے مردم شماری میں ذات کے تعین کو شامل کیا جائے تاکہ پسماندہ طبقات کی معاشی، تعلیمی اور سماجی حالت کو بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات کیے جا سکیں۔یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ملک کی اندرونی اور بیرونی صورتحال پیچیدہ ہے، پہلگام واقعے کے بعد قومی سلامتی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، اور کئی ریاستوں میں انتخابات بھی قریب ہیں، خاص طور پر بہار جیسے صوبے میں، جہاں بی جے پی تاحال مکمل سیاسی غلبہ حاصل نہیں کر سکی۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ حکومت نے یہ قدم نہ صرف سیاسی داؤ کے طور پر اٹھایا ہے بلکہ یہ کوشش بھی کی ہے کہ اپوزیشن بالخصوص راہل گاندھی کو اس مطالبے پر عوامی حمایت کا کریڈٹ نہ لینے دیا جائے۔
ملک میں پسماندہ ذاتوں کی آبادی کا تناسب 60 فیصد سے زائد ہے، لیکن وسائل اور مواقع کی تقسیم میں یہ طبقات پیچھے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، تعلیم، ملازمت، صحت اور سیاسی نمائندگی سمیت ہر شعبے میں اعلیٰ ذاتوں کو برتری حاصل رہی ہے، حالانکہ ان کا آبادی میں تناسب بہت کم ہے۔ حالیہ برسوں میں بہار میں کرائے گئے ایک ذات پر مبنی سروے سے یہ واضح ہوا کہ وہاں اعلیٰ ذات کے افراد صرف پندرہ فیصد ہیں جب کہ پسماندہ ذاتوں کا حصہ تریسٹھ فیصد کے قریب ہے، اور بقیہ دلت و قبائلی برادریوں پر مشتمل ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں نے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ مردم شماری میں صرف ذات کے اندراج تک محدود نہ رہا جائے بلکہ ہر فرد کی تعلیمی، اقتصادی اور سماجی حالت کا بھی اندراج کیا جائے تاکہ ایک ہمہ گیر پالیسی ترتیب دی جا سکے۔ ساتھ ہی کانگریس ورکنگ کمیٹی نے ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ ریزرویشن کی موجودہ پچاس فیصد حد کو ختم کر کے اسے آبادی کے تناسب سے بڑھایا جائے، اور یہ سہولت نجی تعلیمی اداروں تک بھی توسیع دی جائے۔
اس پیش رفت پر سیاسی پالیسی سازوں کی رائے منقسم ہے، مگر بہت سے ماہرین اسے مثبت قدم قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق ملک میں جامع منصوبہ بندی اور مساوی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب ہر طبقے کے بارے میں درست اعداد و شمار دستیاب ہوں۔ تاہم بعض تجزیہ کار خبردار کرتے ہیں کہ اگر صرف اعداد و شمار جمع کیے جائیں اور ان کی بنیاد پر اصلاحات نہ کی جائیں تو یہ سروے محض کاغذی کارروائی تک محدود رہ جائے گا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت کے مسلمان بھی ذات کی بنیاد پر تقسیم کا شکار ہیں، اور ان کے اندر بھی تعلیم، ملازمت اور نمائندگی کے میدان میں اعلیٰ ذاتوں کا غلبہ رہا ہے۔ انگریز دور کے ایک مطالعے کے مطابق مسلمانوں میں 81 فیصد آبادی پسماندہ ذاتوں پر مشتمل ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی حالیہ برسوں میں پسماندہ مسلمانوں کے حوالے سے آواز اٹھائی ہے اور انہیں بی جے پی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی ہے، یہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہ چند بااثر اشرافیہ طبقے نے انہیں آگے بڑھنے سے روکے رکھا ہے۔ذات پات کا نظام بھارت میں صدیوں سے رائج ہے، جسے آئین سازوں نے جمہوری اصولوں کے تحت ختم کرنے کا عزم کیا تھا، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ سماجی تفریق آج بھی جوں کی توں موجود ہے۔ اگرچہ دلتوں اور قبائلیوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے ریزرویشن دیا گیا، اور تعلیم و ملازمت کے مواقع فراہم کیے گئے، لیکن سب سے بڑی آبادی رکھنے والے پسماندہ طبقات کو وہ سطح حاصل نہ ہو سکی۔
پسماندہ طبقے کی سیاسی بیداری نے شمالی اور جنوبی بھارت میں کئی علاقائی جماعتوں کو جنم دیا جنہوں نے اس تفریق کے خلاف آواز اٹھائی، جیسے بہار میں لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل، اتر پردیش میں ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی اور نتیش کمار کی جنتا دل یونائیٹڈ۔ ان تحریکوں کے نتیجے میں 1989 میں مرکزی سطح پر پسماندہ ذاتوں کو ریزرویشن دیا گیا، لیکن اسے پچاس فیصد کی حد میں محدود رکھا گیا۔آج جب کہ ملک میں ذات کے نظام پر مبنی سماجی تفریق کے خلاف شعور بیدار ہو رہا ہے، یہ مردم شماری صرف اعداد و شمار اکٹھا کرنے کا عمل نہیں بلکہ ایک بڑی سماجی تبدیلی کی علامت بن سکتی ہے۔ ایک ایسا قدم جس سے مستقبل میں مساوی مواقع، شفاف پالیسی سازی اور سماجی انصاف کی بنیادیں مضبوط ہوں گی۔