ہولی کے رنگ میں بھنگ : ایک لمحہ فکریہ

ڈاکٹر جہاں گیر حسن
ہندوستان جسے متنوع ثقافتوں اورتہذیبوں کا گہوارہ کہاجاتا ہے اب وہ تنفر وتعصب، فرقہ پرستی اور قتل و غارت کی آماجگاہ بنتاجارہا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیاسےفرقہ پرستی اور قتل و غارت کی خبریں نشر نہ ہوتی ہوں۔ اس طرح کی مخرب اخلاق و معاشرے خبریں عوام اور غیر تعلیم یافتہ افراد کی طرف سے سامنے آئے تواُسے ایک منٹ کے لیےنظراَنداز کیا جاسکتاہے،لیکن جب یہی چیزیں خواص اور تعلیم یافتہ افراد کی طرف سے رونما ہوں تو وحشت ناک حدتک فکر لاحق ہوتی ہے اور کان کھڑے ہوتے ہیں۔ بالخصوص ہندوستان کے مذہبی تہواروں کے پردے میں جب وحشیانہ سلوک کورَوا سمجھا جاتا ہے، تو گنگاجمنی مشترکہ تہذیب وتمدن کی سالمیت کے لیے خطرات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ مذہبی تہواروں کو صاحبانِ اقتدار جس طریقے سے اپنے سیاسی مفاد میں استعمال کررہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، اور ایسا کرنا محض ایک خاص طبقے کے لیے نقصان دہ نہیں ہے، بلکہ خوداکثریت اوراُن کے مذہبی تہواروں کے حق میں بھی سخت مضرثابت ہوسکتاہے۔وہ اِس طورپر کہ مذہبی تہواریں جواپنی پاکیزگی اوراپنی اُخوت ومروت کے لیے جانے جاتے ہیں اُن کاوقارمجروح ہوسکتا ہےاور بہت ممکن ہے کہ یہ مذہبی تہواریں اپنا وجود بھی کھوبیٹھیں۔ حالاں کہ بلاشبہ اکثریتی طبقے کے سبھی افراد مذہبی تہواروں کے نام پر جرائم انجام نہیں دیتے،لیکن اِس بات سےبھی انکارنہیں جاسکتا ہے کہ اس طبقے کے ساٹھ فیصد افراد مذہبی تہواروں کے نام پر جرائم کے مرتکب ہیںاور اُسے روا سمجھتے ہیں۔
ابھی اکثریتی طبقے کا ایک عظیم مذہبی تہوار’ ہولی‘ گزرا ہے جسے ہم اپنے ایام طفولیت ہی سے اُخوت و بھائی چارے کا تہوار جانتے تھے، مگراَب اُسے تعصب ونفرت، قتل وغارت اور فرقہ پرستی کا تہوار بنادیا گیا ہے۔ ہندوستان کی گنگا- جمنی مشترکہ تہذیب وتمدن کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ جب فرقہ پرستوں کے خوف سے ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں مساجد پر کور چڑھاے گئے اور شرپسندوں کی شرارت سے محفوظ رکھنے کے لیےمسلم عبادت گاہوں کو چھپانی پڑگئیں۔ لیکن اِس کے باوجود شرپسندوں کی شرپسندی ختم نہیں ہوئی۔اُن لوگوںنےاخلاقیات و احساسات، اُخوت ومروت اور خیرسگالی کی ساری حدیں پار کردیں۔اُنھوں نے ملک کے مختلف مقامات پر کورشدہ مساجد کو بھی نہیں بخشا اور مسلم عبادت گاہوں کے سامنے ہولی منانے کے نام پر نہ صرف وحشیانہ ہوڑدنگ اور شوروغوغا کیا بلکہ قتل وغارت گری کی وارداتیں بھی انجام دیں۔ میڈیارپورٹ کے مطابق: اُناؤ میں جبریہ گلال ڈالنے کا ایک معاملہ سامنے آیا جس میں ۵۵ ؍سالہ شریف نامی ایک شخص کواِس قدر ماراپیٹا گیاکہ اُس کی جان چلی گئی۔ راجدھانی دہلی کے مشہور علاقہ قطب مینار میں ایک شخص کوفورویلر سے اُتارکر اُس کے ساتھ غیراِنسانی حرکتیں کی گئیں۔ مہاراشٹرکے رتنا گیری میں مسجد کادروازہ توڑدیاگیا اور پولیس انتظامیہ تماشائی بنا رہا۔
یہ پہلا رخ ہے،اِس کا دوسرا رُخ بھی بڑا بھیانک ہے۔ کان پور میں ہولی ملن کے دوران پانچ جوانوں نے اپنے ہی طبقے کی ایک خاتون کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی۔ ذرائع کے مطابق: اُن لوگوں نے خاتون کے شوہر کو شراب پلاکر بےہوش کردیااور پھر خاتون کے ساتھ چھیڑچھاڑ شروع کردی۔ مخالفت کرنے پر خاتون کو کھیت میں لے گئے، جہاں اجتماعی طورپرزنابالجبرکیا اور فرار ہوگئے۔ مرادآباد میں ہولی نہ کھیلنے پر چھوٹونامی ایک شخص نے اکشےنامی دوسرےشخض کو قتل کردیا۔ہوا یوںکہ اکشے نامی شخص نہاچکا تھا، اِس لیے اُس نے ہولی کھیلنے سے انکار کردیااوراِسی بات کو لےکر اُس پرپستول سےگولی چلادی گئی۔ مشرقی دہلی کے کلیان پوری میں ہولی کے دن شراب کے نشے میں پنکج کمار سنہا اور جیتو نے ۲۵؍ سالہ جوان اشیش کی بائک میں ٹکرمار دی۔ تکرار ہونے پر پنکج اور جیتو نے اَشیش کے سر پر شراب کی بوتل دے مارا اور اُس کا سر پھوڑ دیا،پھر اُسی سے اَشیش کا گلا ریت کر اُس کا قتل کردیا۔ آگرہ میں ایک بیوہ خاتون نے تیز آواز میں ڈی جے بجانے سے منع کیا ،تو اُودل سنگھ، کندن، ابھیشیک وغیرہ نے اُس خاتون کو برہنہ کردیا اورپھر بیلٹ اور لاٹھی ڈنڈے سے اُس کی پیٹائی کردی۔
اِس موقع یہ ذکر کیے بغیر ہم نہیں رہ سکتےکہ پریما جی مہاراج کے ایک شاگرد نے جب اُن سے دریافت کیا کہ اِس بارہولی کے موقع لوگوں کو آپ کیا پیغام دیںگے؟ تو اُنھوں نے اپنی کمیونٹی کے نام اپنے پیغام میں کہاکہ ہولی دراصل بُرائیوں پر نیکیوں کی جیت ہے۔ کیوںکہ ہولی مہوتسو’ پرہلاد جی‘ کےزندہ رہنے پر منایا گیا تھا۔واقعہ کچھ یوں ہےکہ ہرن کشیپ، پرہلاد جی کو مارنا چاہتا تھا۔ لیکن ’ ہرن کشیپ‘ کےہزارکوششوں کےباوجود پرہلاد جی نہیں مرے ،اوراُس کی بہن’ہولیکا‘ نے اُسے اداس دیکھاتو اُس نے پوچھا: اُداس کیوں بیٹھےہو؟ اُس نے کہا: ’پرہلاد‘ مرنہیں رہا ہے۔ہولیکا نے کہا:آج مرجائےگا۔ لکڑی کا بہت سا ڈھیر لگایا جائےاوراُسے جلایاجائے۔ پرہلاد کولےکرہم اُس اگنی میں بیٹھ جائیںگے۔شیتل پٹ کی شکل میں ہمیں اگنی سے ایک وردان ملا ہے۔اُس کو ہم اُوڑھ لیں گےتوہمارا روم بھی نہیں جھلسےگا اور پرہلاد بھی مرجائےگا۔ یہ سن کر ہرن کشیپ بہت خوش ہوا کہ اب پرہلاجلاد مرجائےگا،چناںچہ لکڑی کا پہاڑ لگایاگیااور آگ لگادی گئی۔اُدھرہولیکا ،پرہلا جی کو لے کر اُس میںبیٹھ گئی۔ لیکن مالک کی مہربانی سے ایسی ہوا چلی کہ شیتل پٹ پرہلاد جی کے اوپر آگیا اور ہولیکا جل کر راکھ ہوگئی۔ جب صبح ہوئی توپرہلاد جی کے طرفدار وںنے دیکھا کہ وہ زندہ ہیں۔اِس پر سب نےمل کر ڈھول منزیرابجائے، کیرتن کی اور آپس میں خوشی کا اظہارکرتے ہوئےایک دوسرے کوگلال لگائےاورِ اس طرح ہولی کا اُتسو منایا گیا۔لیکن اس کے برخلاف وہ لوگ جو ہولی میں شراب پیتے ہیں۔ گندی حرکتیں کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے چہرے پر کالک پوتتے ہیں۔ نالیوں میں کھیلتے ہیں۔ گوبراور کیچڑ لگاتے ہیں۔ یہ سب ہرن کشیپ کے طرفدار ہیں جواِس طرح اُلٹے سیدھےانداز میں خوشی مناتے ہیں۔یہ ہولی نہیں ہےاورنہ یہ سادھناہے۔ کیوں کہ سادھنا تو یہ ہوتی ہےکہ سب مل کرپریم اوربھاؤسے ایک دوسرے کوگلال لگائیں۔ رام کرشن ہری بولیں۔ بیٹھ کر گن گان کریں۔ خودبھی مٹھائی کھائیںاور دوسروں کو بھی کھلائیںاور آپس میںخوب لطف اُٹھائیں۔
لیکن اِن تمام سنجیدہ اورپیاری باتوں کے باجود اِمسال ہولی پرجوواقعات پیش آئے ہیں،خواہ وہ مسلم کمیونٹی سے متعلق ہوں یا غیرمسلم کمیونٹی سے، بہرحال ایک طرف جمہوریت اورقانون وانتظامیہ کی پیشانی پر بدنماداغ ہیںتو دوسری طرف جمہوریت پسنداَفرادکےلیے سخت ننگ وعار کاسبب بھی ہیں کہ وہ تحریری وزبانی جمع خرچ سے آگےنہیں بڑھتےاور سمجھتے ہیں کہ اُنھوں نے اپنا حق ادا کردیا، جب کہ آج ضرورت اِس بات کی ہےکہ تحریر وتقریر کے ساتھ عملی اقدام بھی کیے جائیں ،جیساکہ ہندوستان کی آزادی میں ہرطبقے سے مجاہدین نکلے اور پھر سبھوں نے اجتماعی طوپراقدام کیے تھے۔بالخصوص اُس وقت بڑی حیرت ہوتی ہے کہ ایک طرف تو سناتن دطرم کےمذہبی گُروپیار-پریم اور سادھنا وسدبھاؤ کے اصولوں پر چلتے ہوئے ہولی منانے کاپیغام دیتے ہیں لیکن دوسری طرف اُنھیں کے ماننے والے اوراپنے آپ کو سناتن دھرم کے پرستار کہنے والے اِس طورپر ہولی مناتے ہیں کہ مذہب وکلچر سے لے کر سیاست ومعاشرت ہرسطح پر اِنسانیت شرمسار نظر آتی ہے اور کیا اقلیت اور کیااکثریت ہرطبقے کے افراد شرپسندوں کا نشانہ بنتے ہیں، لہٰذااِس طرح کے مسائل پر محض یہ کہہ دینے سے کام نہیں چلےگاکہ یہ سب اہل سیاست جانیں بلکہ اُنھیں اپنی ذمہ داری زبانی اور عملی دونوں سطحوں پر نبھانی ہوگی اور اپنے ملک ومعاشرت کو ہرطرح کے شرپسندوں سے محفوظ رکھنا ہوگا۔