سیاسی بصیرت

مغربی بنگال میں کیا کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے؟

محمد شہباز عالم مصباحی

سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال

مغربی بنگال، جو ہندوستان کی سیاست میں ایک اہم ریاست ہے، اپنی تاریخی، ثقافتی اور مذہبی تنوع کے لیے مشہور ہے۔ اس ریاست کی مجموعی آبادی کا تقریباً 27 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، جو اسے ہندوستان کی ان ریاستوں میں شامل کرتا ہے جہاں مسلمانوں کی ایک مضبوط اور نمایاں موجودگی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مغربی بنگال میں کبھی کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے؟ اگر ہاں، تو اس کے لیے کیا حالات اور عوامل درکار ہیں؟

مسلمانوں کی آبادی اور سیاسی اثر و رسوخ:
مغربی بنگال کے مسلمانوں کی بڑی تعداد خاص طور پر مرشد آباد، مالدہ، اتر دیناج پور اور جنوبی 24 پرگنہ جیسے اضلاع میں مرتکز ہے۔ یہ اضلاع ریاست کی سیاسی حرکیات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے ووٹ اکثر فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے سیاسی جماعتیں انہیں اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

تاہم، اس کے باوجود مسلمانوں کو سیاسی قیادت میں اس طرح کی نمائندگی حاصل نہیں ہو سکی جو ان کی آبادی کے تناسب سے ہو۔ ابھی تک مغربی بنگال میں کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ نہیں بنا، حالانکہ مسلمان امیدواروں کی بڑی تعداد مختلف جماعتوں کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچی ہے۔

موجودہ سیاسی منظر نامہ:
مغربی بنگال کی سیاست پر طویل عرصے سے ترنمول کانگریس (TMC) اور اس سے پہلے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (CPI-M) کا غلبہ رہا ہے۔ دونوں جماعتیں مسلمانوں کے ووٹ بینک کو اپنی پالیسیوں کا مرکز بناتی رہی ہیں، لیکن قیادت ہمیشہ غیر مسلم ہاتھوں میں رہی۔ ممتا بنرجی کی قیادت میں ترنمول کانگریس نے مسلمانوں کو کئی مراعات دی ہیں، لیکن مسلمانوں کو اعلیٰ عہدوں پر پہنچانے میں ناکام رہی ہے۔

کیا کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے؟
تاریخی طور پر، مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے مختلف عوامل کارفرما رہے ہیں، جن میں فرقہ وارانہ سیاست، مسلمانوں کی داخلی تقسیم، اور قیادت کا فقدان شامل ہیں۔ لیکن مغربی بنگال میں ایک مسلمان وزیر اعلیٰ بننے کے امکانات کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے درج ذیل عوامل ضروری ہیں:

  1. مسلمانوں کی سیاسی یکجہتی:
    مسلمانوں کو اپنی سیاسی طاقت کو سمجھتے ہوئے متحد ہونا ہوگا۔ اگر وہ اپنی آبادی کے تناسب کے مطابق ووٹ بینک کو منظم کر سکیں تو یہ ممکن ہے کہ ایک مضبوط قیادت ابھر کر سامنے آئے۔
  2. نئی سیاسی جماعت یا مضبوط اتحاد:
    اگر مسلمانوں کے مفادات کی حقیقی نمائندگی کرنے والی کوئی سیاسی جماعت یا اتحاد وجود میں آ جائے تو یہ وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے راہ ہموار کر سکتا ہے۔
  3. جدید تعلیم اور سیاسی شعور:
    مسلمانوں کو جدید تعلیم کے ذریعے نہ صرف معاشی طور پر، بلکہ سیاسی طور پر بھی خودمختار بننا ہوگا۔ تعلیم یافتہ قیادت ہی صحیح معنوں میں مسلمانوں کی آواز بلند کر سکتی ہے۔
  4. دیگر اقلیتوں اور سیکولر قوتوں کا ساتھ:
    مسلمانوں کو دیگر اقلیتوں اور سیکولر سوچ رکھنے والے ہندوؤں کے ساتھ اتحاد قائم کرنا ہوگا، تاکہ فرقہ وارانہ سیاست کو شکست دی جا سکے۔

رکاوٹیں اور چیلنجز:
اس خواب کو عملی جامہ پہنانے میں بہت سی رکاوٹیں بھی حائل ہیں، جن میں فرقہ وارانہ ماحول، سیاسی جماعتوں کی داخلی سیاست، اور معاشرتی مسائل شامل ہیں۔ بی جے پی جیسے جماعتوں کی فرقہ وارانہ سیاست مسلمانوں کو قیادت کی دوڑ میں شامل ہونے سے روک سکتی ہے۔

نتیجہ:
مغربی بنگال میں ایک مسلمان وزیر اعلیٰ بننے کا خواب ممکن ہے، بشرطیکہ مسلمان اپنی آبادی کے تناسب سے سیاسی شعور کا مظاہرہ کریں اور قیادت کے خلا کو پُر کریں۔ انہیں اپنی طاقت کو منظم انداز میں استعمال کرنا ہوگا اور ان جماعتوں پر دباؤ ڈالنا ہوگا جو ان کے ووٹوں پر انحصار کرتی ہیں۔

اگر مسلمان اپنے سماجی اور سیاسی مسائل کو حل کرنے کے لیے یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھیں تو مغربی بنگال میں ایک مسلمان وزیر اعلیٰ کا انتخاب کوئی ناممکن بات نہیں۔ لیکن اس کے لیے بھر پور جدوجہد اور ایک مدبر قیادت کی ضرورت ہے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

سیاسی بصیرت

ٹی ایم سی رائے گنج لوک سبھا الیکشن کیوں نہیں جیت پاتی؟

تحریر: محمد شہباز عالم مصباحی رائے گنج لوک سبھا حلقہ مغربی بنگال کی ایک اہم نشست ہے جس کی سیاسی
سیاسی بصیرت

بھارت میں مسلمانوں کی جمہوری حصہ داری: ایک غور طلب مسئلہ

آفتاب اظہر صدیقی کشن گنج، بہار ہمارا ملک بھارت ایک جمہوری نظام پر چلنے والا ملک ہے، کسی بھی جمہوری