دہلی میں جھاڑو پہ چل گیا جھاڑو

ڈاکٹر سلیم خان
دہلی میں بھی آخر کمل کھل ہی گیا۔ 27 سال کی سیاسی قحط سالی کے بعد یہ کامیابی وزیر اعظم نریندر مودی کا سبکدوشی سے قبل بی جے پی کےلیے سب سے قیمتی تحفہ ہے ۔ مودی یہ بھول نہیں سکتے کہ پہلی بار جب وہ انتخاب لڑنے کے لیے وارانسی پہنچے تو ان کے سامنے اروند کیجریوال موجود تھے۔ وہاں تو خیر مودی نے ہرا دیا مگر قومی انتخاب کے بعد مودی نے مہاراشٹر، ہریانہ اور جھارکھنڈ جیت کر جو ملک کو فتح کرنے کا خواب دیکھا تھا اس کو دہلی میں اروند کیجریوال نےچکنا چور کیا ۔ مودی جی کو پتہ چلا کہ 70 میں 3 نشستوں پر کامیابی کیسی لگتی ہے؟ اس کے 5 سال بی جے پی نے دہلی کے فسادات اور این آر سی و سی اے اے کی بنیاد پر الیکشن جیتنے کی کوشش کی ۔ امیت شاہ کا نعرہ اتنی زور سے ای وی ایم کا بٹن دباو کہ شاہین باغ میں کرنٹ لگے کون بھول سکتا ہے؟ گولی مارو سالوں کا نعرہ بھی اسی وقت زمانے میں لگا مگر بی جے پی 8 سے آگے نہیں پہنچ سکی ۔
1993؍ میں جب پھر سے دہلی کی اسمبلی بنی تو پہلا انتخاب بی جے پی نے ہی جیتا تھا ۔ اس نے اپنے پانچ سالوں میں تین وزرائے اعلیٰ بدلے ۔ ان تینوں کو مرکزی وزیر تک بنایا مگر دہلی انتخاب نہیں جیت سکی ۔ تین مرتبہ کانگریس کی شیلا دکشت نے اسے شکست سے دوچار کیا اور پھر اروند کیجریوال آئے انہوں نے بھی تین مرتبہ بی جے پی کو ہرایا لیکن اب بار دہلی میں کمل پھر سے کھل گیا ۔ اس کامیابی کی خوبی یہ ہے قومی انتخاب میں منگل سوتر کے چھن جانے سے ڈرانے والی اور جھارکھنڈ میں روٹی ، ماٹی اور بیٹی کو لاحق خطرات سے خوفزدہ کرنے والی بی جے پی نے نفرت انگیزی سے گریز کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی کی انتخابی مہم میں اس بار نہ تو’’ بنٹوگے تو کٹوگے‘‘ کا نعرہ لگا اور نہ ’’ایک ہیں تو سیف ہیں‘‘ کی بات کہی گئی۔ اسی لیے سیفٹی (بحفاظت) کے ساتھ کمل کھل گیا۔ بی جے پی کے لیے اس انتخاب میں یہ سبق ہے کہ مسلمانوں کی مخالفت انتخابی کامیابی کی گارنٹی نہیں ہے بلکہ اپنی حریف جماعت کی کمزوریوں کو اجاگر کرکے عوام کی ذہن سازی اور سرکاری مشنری کا غلط استعمال انتخابی کامیابی کے لیے کافی ہے۔
دہلی کے اندر اس بار سب سے زیادہ بدزبانی رمیش بھدوری نے کی ۔ اپنے مدِ مقابل امیدوارکے خلاف خطاب عام میں کہہ دیا کہ وزیر اعلیٰ نے تو اپنا باپ بدل دیا حالانکہ آتشی کا خاندانی نام سنگھ ہے ۔ اس نے وہ استعمال کیا تو اس پر کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے کجا کہ ایسا بازاری جملہ کہے ۔ اس تضحیک آمیز سلوک پر وزیر اعلیٰ پھوٹ پھوٹ کر روئیں مگر الیکشن کمیشن کا دل نہیں پسیجا اور نہ بی جے پی کو شرم آئی کہ وہ بھدوری کو بدل دیتی ۔ اس نے آگے بڑھ کر کہہ دیا کہ وہ دہلی کی سڑکوں کو پرینکا گاندھی کے گالوں کی طرح چکنا بنا دیں گے اور معذرت سے بھی انکار کردیا ۔ اس کانتیجہ یہ نکلا کہ جہاں اروند کیجریوال نئی دہلی سیٹ سے اورمنیش سسودیا جنگپورہ میں ہار گئے ۔ سوربھ بھردواج گریٹر کیلاش سیٹ سے اورراجندر نگر سیٹ سے درگیش پاٹھک بھی کھیت رہے۔ جیل جانے والے وزیر صحت ستیندر جین شکوربستی اور سومناتھ بھارتی مالویہ نگر سے اپنی سیٹ نہیں بچا سکے مگر آتشی مارلینا نے رمیش بھدوری کو پٹخنی دے کر بازی مارلی ۔ یہ گالی گلوچ کی سزا ہے۔
ان انتخابی نتائج میں بی جے پی کے ساتھ ساتھ عام آدمی پارٹی کے لیے بھی بہت سارے ا سباق ہیں ۔ اروند کیجریوال نے اپنا پہلا انتخاب بدعنوانی کے خلاف لڑا ۔ سادگی نے عوام کو ان کا گرویدہ بنا دیا۔ بی جے پی نے اروند کیجریوال کی ’کٹرّ ایماندار‘ والی شبیہ کو نیست و نابود کرنے کی خاطر ستیندر جین، منیش سسودیہ ، سنجے سنگھ اور خود کیجریوال کو جیل بھیج دیا۔ شراب گھوٹالہ کے علاوہ ًدہلی جل بورڈ(آب رسانی) کی بدعنوانی جیسے کئی الزامات لگائے ۔ اس معاملے میں ٹھیکے داروں سےرشوت وصولی کے لیے کم رقم پر ٹھیکے دینے کا الزام تھا۔ سابق وزیر اعلی اروند کیجریوال کے خلاف انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے ۔ عام آدمی پارٹی کے کئی بڑے لیڈروں پر بدعنوانی کے الزامات لگے ۔ ویسے کیجریوال کے خلاف شواہد کمزور ہیں مگر عوام کو پتہ ہے کہ موجودہ سیاست میں بدعنوانی کے بغیر انتخابی کامیابی ناممکن ہے اس لیے وہ کارڈ فیل ہوگیا ۔
کیجریوال کے ضمانت کی شرائط میں ان پر دفتر جانے کی پابندی اور حکمناموں پر دستخط کی اجازت نہیں ہے اس لیے انہیں استعفیٰ دینا پڑا ۔ انہوں نے بڑی چالاکی سے اعلان کردیا کہ وہ انتخاب جیتے بغیر وزیر اعلیٰ نہیں بنیں گے حالانکہ عدالتی پابندی انتخابی کامیابی مشروط نہیں ہے۔وہ منتخب شدہ ہونے کے باوجود جیل کی ہوا کھاچکے ہیں ۔ انتخابی مہم کے دوران رائے دہندگان کے جذباتی استحصال کی خاطر کیجریوال نےاسے استصواب بناتے ہوئے کہا تھا اگر لوگ انہیں بدعنوان سمجھتے ہیں تو ووٹ نہ دیں ۔ اروند کیجریوال نے خواب و خیال میں بھی نئی دہلی سے ہار کی بابت نہیں سوچا ہوگا۔ اس لیے یہ بڑا دعویٰ کردیا لیکن اب وہ الٹ کر آگیا ۔ وہ کرپٹ ہیں یا نہیں اس سے قطع نظر انہیں اپنی شکست کے بعد یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ لوگ ان کو بدعنوان سمجھتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی پہلے ہی سمجھ چکے تھےسیاست کے میدان میں بدعنوانی ناگزیر ہے اس لیے انہوں نے نہ صرف یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن جیسے لوگوں کو بے آبرو کرکے پارٹی نکلنے پر مجبور کیا بلکہ دہلی میں لوک آیوکت لانےکے بجائے خود پارٹی کے آڈیٹر کو برخواست کردیا تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری ۔ اصول پسند دانشوروں کی نکاسی کے بعد جین اور سسودیہ جیسے لوگوں کے یہ بھی بدعنوان جماعت بن گئی۔ ایک زمانے میں کیجریوال نےاشوتوش کے ساتھ اپنے ایک انٹریو میں کہا تھا کہ میں سرکاری گھر اور لال بتی والی گاڑی سمیت زیڈ پلس سیکیورٹی بھی نہیں لوں گا ۔ انہوں نے کہا تھا اس کا حلف نامہ بناکر اپنے حلقۂ انتخاب کے گھر پر پہنچا دیا ہے۔ میں اگر اس سے مکرتا ہوں تو وہ میرے خلاف عدالت میں جاسکتے ہیں۔ بی جے پی نے کروڈوں کی لاگت سے بننے والے شیش محل کے راز فاش کرکے سادگی کا چول کو تار تار کردیا ۔
کیجریوال کو کانگریس سے اس لیے ڈر لگتا ہے کہ کہیں کانگریسی ووٹر واپس نہ چلا جائے۔ اس لیے پارلیمانی انتخاب میں انڈیا کے ساتھ رہنے کے باوجود کانگریس کے ساتھ کو مشترکہ ریلی نہیں کی گئی ۔ علاقائی جماعتیں جہاں مضبوط ہوتی ہیں کانگریس کو محتاج سمجھتی ہیں ۔ وہ دہلی کے علاوہ پنجاب میں کانگریس سے حکومت چھین چکے ہیں۔ ہریانہ ، گوا ، اتراکھنڈ
اور ایم پی وغیرہ میں الیکشن لڑ کر کانگریس کا نقصان کرچکے ہیں لیکن اس بار کانگریس نے اٹھارہ مقامات پر عآپ کو ہرا کر بتا دیا کہ دوسروں کی طرح وہ خود بھی ان کی محتاج ہے۔ ان نشستوں کے ساتھ کانگریس کا ووٹ شیئر اگر عآپ میں ملا دیا جائے تو بی جے پی سے پانچ فیصد زیادہ ہوجاتا ہے اس لیے آئندہ اروند کیجریوال کو کانگریس کے ساتھ الیکشن لڑنا چاہیے۔ کانگریس اس بار بھی صفر سے آگے نہیں بڑھ سکی مگر اس ووٹ شیئر میں اضافہ ہوا ہے۔ کیجریوال جیت جاتے تو ان کی رعونت ممتا بنرجی جیسی ہوجاتی اور دونوں ملک کرراہل کا جینا دوبھر کردیتے ۔
دس سال قبل عام آدمی پارٹی نے جب غریبوں کے لیے بجلی کا بل معاف کیا اورخواتین کو مفت سفر کی سہولت دی تو وہ حیرت ناک بات تھی ۔ اچھے سرکاری اسکول اور محلہ کلینک نے بھی عوام کو چونکایا مگر اب وہ اس کے عادی ہوگئے اور اسے احسان نہیں بلکہ اپنا حق سمجھنے لگے۔ اس بات کو محسوس کرکے اروند کیجریوال نے ہندوتوا کا لبادہ اوڑھ لیا۔ وہ رام بھگتوں کے مقابلے کٹرّ ہنومان بھگت بن گئے۔ بی جے پی نے رام مندر بنوایا تو اس میں بزرگوں کو مفت بھیجنے کا اہتمام کرنے لگے ۔ کشمیر کی دفع 370 کے خاتمے میں بی جے پی کا ساتھ دیا ۔ شاہین باغ تحریک کے وقت جامعہ میں حملے تک کی مذمت نہیں کیاوردہلی فساد کے مظلومین کے آنسو بھی نہیں پونچھے۔ بے قصور گرفتار شدگان سے ہمدردی تک نہیں جتائی ہندو رائے دہندگان کی کی ناراضی سے ہمیشہ خوفزدہ رہے مگر بالآخر انہیں رائے دہندگان نے پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا مگر گیارہ میں سے دس مسلم علاقوں سے عآپ کامیاب ہوئی۔ مصطفٰی آباد سے بھی اگر وہ اپنے پرانے رکن اسمبلی طاہر حسین کو اپنا امیدوار بناتے تو نہ وہ ایم آئی ایم کے ٹکٹ پر لڑتے اورنہ عام آدمی پارٹی کے میدوار کوہرواتے ۔ اب کم از کم کیجریوال کو سمجھ لینا چاہیے کہ اگر وہ بی جے پی سے لڑنا چاہتے ہیں تو مسلمان ہی اس کے کام آسکتے ہیں ۔ اس لیے ہندو ووٹرس سے سے ڈرنا کم کریں کیونکہ گر مسلمان نکل گئے تو پارٹی غائب ہوجائے گی۔ مسلمانوں سے فاصلہ بناکر ہندووں کی نازبرداری کرنے والے اروند کیجریوال کی حالتِ زار پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
مری نماز جنازہ پڑھی ہے غیروں نے
مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے