بہار ووٹر لسٹ تنازع:سپریم کورٹ میں ناموں کے بڑے پیمانے پر اخراج پر بحث

بہار ووٹر لسٹ نظرثانی پر سپریم کورٹ میں بحث، یوگیندر یادو کا بڑے پیمانے پر نام حذف ہونے کا خدشہ، دستاویزات پر اعتراض۔
سپریم کورٹ میں منگل کے روز بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی اور جامع نظرثانی کے خلاف دائر پٹیشنوں کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران سماجی کارکن یوگیندر یادو نے اپنے دلائل میں عدالت کو آگاہ کیا کہ یہ مہم اصل مقصد سے ہٹ کر بڑی تعداد میں ووٹروں کے نام حذف کرنے کی مہم میں بدل چکی ہے۔انھوں نے عدالت میں دو ایسے افراد بھی پیش کیے جو زندہ ہیں مگر انہیں ڈرافٹ ووٹر لسٹ میں ’’مردہ‘‘ قرار دے کر ان کا نام نکال دیا گیا ہے۔ یوگیندر یادو نے عدالت کو اس یقین دہانی کی بھی یاد دہانی کرائی جو مقدمہ کے آغاز میں دی گئی تھی کہ اگر بڑے پیمانے پر نام حذف کیے جائیں تو عدالت مداخلت کرے گی۔یادو کے مطابق ان کے تجزیے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر یہی رجحان جاری رہا تو حذف شدہ ووٹروں کی تعداد موجودہ 65 لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ تک جا سکتی ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگلے مرحلے میں جب ووٹروں سے شہریت کے ثبوت طلب کیے جائیں گے تو بڑی تعداد میں لوگ مطلوبہ کاغذات فراہم نہیں کر سکیں گے، جس کے نتیجے میں مزید نام فہرست سے نکل سکتے ہیں۔
عرضی گزاروں نے الیکشن کمیشن کی جانب سے طلب کردہ دستاویزات پر بھی اعتراض اٹھایا۔ وکیل کپل سبل نے جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جوئے مالا باغچی پر مشتمل بینچ کو بتایا کہ برتھ سرٹیفکیٹ، میٹرک سرٹیفکیٹ یا پاسپورٹ ہر شہری کے پاس نہیں ہوتا، اس لیے یہ تقاضا غیر عملی ہے۔ اس پر جسٹس کانت نے کہا کہ بہار بھی ہندوستان کا حصہ ہے اور یہ ممکن نہیں کہ وہاں کے لوگوں کے پاس کوئی بھی ضروری دستاویز نہ ہو۔بینچ نے الیکشن کمیشن کے اس مؤقف کو درست قرار دیا کہ آدھار کارڈ شہریت کا حتمی ثبوت نہیں ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ووٹر لسٹ میں صرف مستحق شہریوں کے نام رکھنا اور غیر شہریوں کے نام نکالنا الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ ساتھ ہی، محض حلفیہ بیان دے دینا کہ کوئی شخص ہندوستانی شہری ہے، کافی نہیں ہوگا۔بینچ نے وضاحت کی کہ شہریت کے قوانین بنانا پارلیمنٹ کا اختیار ہے، اور قانون بننے کے بعد اس پر عمل درآمد کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے، تاکہ مستحق شہری ووٹر لسٹ میں شامل رہیں اور غیر شہری خارج ہو جائیں۔