بہار الیکشن: مہاگٹھ بندھن میں سیٹ بٹوارے پر بڑھا تنازع

بہار الیکشن میں مہاگٹھ بندھن کے اتحادی سیٹ بٹوارے پر تقسیم، کانگریس اور آر جے ڈی کئی نشستوں پر آمنے سامنے۔
پٹنہ ۔بہار اسمبلی انتخابات کے لیے نامزدگی کی آخری تاریخ جمعہ کی شام ختم ہو گئی، مگر مہاگٹھ بندھن (یعنی آر جے ڈی، کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد) تاحال سیٹوں کے بٹوارے کے باضابطہ اعلان کے بغیر ہی انتخابی میدان میں اُتر چکا ہے۔ بظاہر اتحاد برقرار ہے کیونکہ زیادہ تر حلقوں میں مشترکہ امیدوار کھڑے کیے گئے ہیں، لیکن کئی نشستوں پر اب بھی اتفاقِ رائے قائم نہیں ہو سکا، جس کے نتیجے میں “فرینڈلی فائٹ” یعنی آپسی مقابلے کی صورت پیدا ہو گئی ہے۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس تاخیر اور بدانتظامی نے مہاگٹھ بندھن کو این ڈی اے سے پیچھے کر دیا ہے، جس نے وقت پر سیٹوں کی تقسیم مکمل کر لی اور اندرونی تنازعات سے بچ گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر وہ اتحاد جسے “مہاگٹھ بندھن” کہا جاتا تھا، کیسے “مہا ڈیل بندھن” بنتا جا رہا ہے۔ذرائع کے مطابق پہلے مرحلے کے نامزدگی کے بعد بھی کم از کم پانچ نشستوں پر اتحادی جماعتوں میں اختلاف باقی ہے۔ کانگریس اور آر جے ڈی دونوں عوامی سطح پر یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے، مگر زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مثال کے طور پر لالگنج سے کانگریس نے آدتیہ کمار راجہ کو ٹکٹ دیا، جب کہ آر جے ڈی نے اُسی حلقے سے شِوانی شکلا کو امیدوار بنایا۔ کہلگاؤں اور بچوارہ نشستوں پر بھی یہی صورتحال دیکھی گئی، جہاں دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے امیدوار اتار دیے۔ سی پی آئی نے بھی بچوارہ میں کانگریس کے خلاف امیدوار کھڑا کر کے کشیدگی بڑھا دی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تنازع دراصل مہینوں سے پل رہا تھا۔ تقریباً آٹھ ماہ قبل کانگریس کو نیا ریاستی صدر اور انچارج مقرر کیا گیا تھا۔ انچارج کرشن اللّاوارو، جو راہل گاندھی کے قریبی سمجھے جاتے ہیں، ابتدا سے ہی آر جے ڈی کے خلاف سخت مؤقف رکھتے تھے۔ انہوں نے پارٹی کے اُن سینئر رہنماؤں کو بھی کنارے کر دیا جو آر جے ڈی کے قریب تھے۔ اس سے سمجھوتے کی گنجائش مزید کم ہو گئی۔ذرائع کے مطابق، ریاستی صدر راجیش رام، لیڈر شکیل احمد خان اور اللّاوارو نے دہلی قیادت کو قائل کیا کہ کانگریس کو اب “پُرکن پارٹی” (filler party) نہیں بننا چاہیے بلکہ اپنے پرانے قلعوں کو واپس حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چنانچہ اگرچہ کانگریس نے اپنی سیٹوں کی تعداد 70 سے گھٹا کر 60–61 تک کر دی، مگر اُس نے کہلگاؤں اور بچوارہ جیسی روایتی نشستیں چھوڑنے سے انکار کر دیا، جو تنازع کی بڑی وجہ بنی۔
اسی دوران مکیش سہنی کی “وِکاس شیل انسان پارٹی” (VIP) کی شمولیت نے پیچیدگی مزید بڑھا دی۔ سہنی ہر بیان میں کہتے رہے کہ اُن کی پارٹی 60 نشستوں پر الیکشن لڑے گی اور انہیں نائب وزیرِ اعلیٰ کا وعدہ دیا گیا ہے۔ کانگریس نے سوال اٹھایا کہ جب اُن کی جماعت کے پاس نہ کوئی ایم پی ہے نہ ایم ایل اے، تو وہ اتنی بڑی دعویداری کیسے کر سکتی ہے۔ادھر سی پی آئی (ایم ایل) نے بھی آر جے ڈی کے پیش کردہ 19 نشستوں کے فارمولے کو مسترد کرتے ہوئے 30 سے زائد سیٹوں کا مطالبہ کر دیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ 2020 میں اُنہوں نے 19 نشستوں پر الیکشن لڑا اور 12 جیتیں، اس لیے ان کی کارکردگی بہتر رہی۔چھوٹے اتحادی، جیسے انڈین انکلیوسو پارٹی، جھارکھنڈ مکتی مورچہ اور پشوپتی پارس گروپ کی پوزیشن بھی غیر واضح ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مہاگٹھ بندھن کی انتظامیہ سیٹ بٹوارے کے قبل از وقت “ہوم ورک” میں ناکام رہی۔
اتحاد کے ایک سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس صورتِ حال کی ذمے داری صرف کانگریس پر نہیں بلکہ آر جے ڈی پر بھی عائد ہوتی ہے۔ 2020 کے اسمبلی انتخابات میں آر جے ڈی نے 144 سیٹوں پر مقابلہ کیا تھا اور اس بار بھی 130–135 نشستوں کا دعویٰ کر رہی ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ جب ہم نے اپنی 70 نشستیں گھٹا کر 60 کر لیں، تو آر جے ڈی کو بھی اپنے دعوے میں کمی کرنی چاہیے تھی، مگر اس نے محض 10–12 نشستیں کم کیں۔ اس طرزِ عمل نے اتحاد میں “بڑے بھائی” کے بجائے “حاکم” کا تاثر پیدا کیا، جس سے سیٹ بٹوارے پر سمجھوتہ مزید مشکل ہو گیا۔