ملاقات سے قبل زیلنسکی کا الزام: روس امن نہیں،فوجی طاقت بڑھا رہا ہے

ٹرمپ،پیوٹن ملاقات سے قبل زیلنسکی کا الزام، روس امن نہیں چاہتا بلکہ مزید فوجی تیاری اور جارحانہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
15 اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی اہم ملاقات ہونے جا رہی ہے، جس میں یوکرین اور روس کے درمیان ممکنہ جنگ بندی پر بات چیت کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ تاہم، اس ملاقات سے پہلے ہی یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے روس کے ارادوں پر سنگین شکوک کا اظہار کیا ہے۔زیلنسکی نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ انہیں خفیہ اداروں اور فوجی کمان سے جو رپورٹیں موصول ہوئی ہیں، ان سے واضح ہوتا ہے کہ پیوٹن نہ تو جنگ بندی کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں اور نہ ہی جنگ کو ختم کرنے کا کوئی سنجیدہ منصوبہ رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق روس کی موجودہ سرگرمیاں اس کے برعکس ہیں۔
انھوں نے کہا کہ روسی افواج اور عسکری ساز و سامان کی تعیناتی تیزی سے بڑھائی جا رہی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ماسکو نئی جارحانہ کارروائیوں کی تیاری میں مصروف ہے۔ زیلنسکی کے مطابق اگر کوئی ملک امن قائم کرنے کی تیاری کرتا ہے تو وہ اپنی فوجی طاقت کو اس طرح نہیں بڑھاتا۔یوکرین کے صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیوٹن اصل میں امریکہ کے ساتھ ہونے والی ملاقات کو اپنی ذاتی کامیابی کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ اندرونِ ملک اور عالمی سطح پر اپنی پوزیشن مضبوط کر سکیں، اور اس کے بعد وہ یوکرین پر دباؤ برقرار رکھیں۔
یہ ملاقات جمعہ کے روز متوقع ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اس موقع پر کوشش کریں گے کہ یوکرین کے کچھ علاقے روس سے واپس لیے جا سکیں۔ تاہم، اس بارے میں کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں آئی کہ وہ یہ مقصد کس طرح حاصل کریں گے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ زیلنسکی کا یہ بیان ملاقات سے پہلے فضا کو مزید کشیدہ کر سکتا ہے۔ روس کی طرف سے اس الزام پر کوئی باضابطہ ردعمل ابھی تک نہیں آیا، مگر ماضی میں ماسکو ایسے دعووں کو مسترد کرتا رہا ہے۔ اس سارے تناظر میں 15 اگست کی ملاقات یوکرین جنگ کے مستقبل کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔