بہاراسمبلی انتخاب سے قبل اپوزیشن کی ’ووٹر ادھیکار یاترا‘میں جوش

بہار انتخابات سے قبل اپوزیشن کی ووٹر ادھیکار یاترا میں راہل، تیجسوی، اکھلیش کی شمولیت، سرحدی اضلاع اور نئے اتحاد پر فوکس۔
بہار میں اسمبلی انتخابات قریب ہیں اور اس سے قبل ووٹر لسٹ کی درستگی کے سوال پر سیاست تیز ہو چکی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں الزام لگا رہی ہیں کہ لسٹ میں بڑے پیمانے پر گڑبڑیاں ہیں، اس لیے عوام کو متحرک کرنے کے مقصد سے ’’ووٹر ادھیکار یاترا‘‘ نکالی گئی ہے۔ اس یاترا کی قیادت کانگریس کے راہل گاندھی اور آر جے ڈی کے تیجسوی یادو کر رہے ہیں اور یہ اب اپنے آخری مرحلے میں ہے۔اہم بات یہ ہے کہ سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو بھی اس مہم میں شریک ہو گئے ہیں۔ وہ پٹنہ سے سیوان اور پھر آرا تک اس یاترا کے ساتھ چلیں گے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اکھلیش کی شمولیت سے آر جے ڈی کے مسلم۔یادو اتحاد کو وسعت ملے گی اور اسے ’’پی ڈی اے‘‘ یعنی پچھڑا، دلت اور اقلیت کی شکل دی جا رہی ہے۔
سیوان، سارن اور بھوجپور جیسے اضلاع کا جغرافیہ اتر پردیش سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں کے عوام کی زبان اور ثقافت میں بھی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں اکھلیش کی موجودگی سوشلسٹ ووٹ بینک کے ساتھ ساتھ برہمن طبقے کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ مبصرین یاد دلاتے ہیں کہ سماج وادی پارٹی کے قد آور رہنما جنےشور مشرا کا تعلق اسی خطے سے تھا۔مہاگٹھ بندھن کی حکمتِ عملی ہے کہ 2020 کے انتخابات میں جہاں بہتر کارکردگی دکھائی گئی تھی، اسے دہرایا جائے اور خاص طور پر گوپال گنج جیسے اضلاع میں نتائج بہتر ہوں جہاں پچھلی بار کامیابی محدود رہی تھی۔
یاترا میں مختلف ریاستوں کے لیڈران کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ متھلانچل میں پرینکا گاندھی اور تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن شریک ہوئے، جب کہ کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارامیا نے گوپال گنج میں موجودگی درج کرائی۔ مقصد یہ ہے کہ روزگار، تعلیم اور ہجرت جیسے سوالات کے ساتھ ساتھ مقامی سماجی تانے بانے کو بھی ایڈریس کیا جائے۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اپوزیشن کی یہ باریک حکمتِ عملی اور بڑے لیڈروں کی موجودگی بہار کے انتخابی میدان میں کتنا اثر ڈال پاتی ہے۔