بانو مشتاق،ترجمے کی طاقت۔بین الاقوامی سطح پر اردو،کنڑ اور دیگر زبانوں کی نمائندگی

وسیم احمد علیمی
بین الاقوامی بوکر انعام 2025 کا اعزاز اس بار بانو مشتاق کی کنڑ زبان میں لکھی گئی کہانیوں کے مجموعے Heart Lamp کو ملا، جسے دیپا بھسٹی نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ پہلا افسانوی مجموعہ ہے جس نے یہ عالمی اعزاز حاصل کیا — اور دیپا بھسٹی اس اعزاز کو پانے والی پہلی ہندوستانی مترجم بنیں۔ بانو مشتاق اپنی کہانیوں میں خواتین کے مسائل اجاگر کرنے کے لیے اپنی منفرد شناخت رکھتی ہیں۔ اردو شاعری میں کشور ناہید اور شفیق فاطمہ شعری کے یہاں ہمیں ایسے جذبات نظر آتے ہیں۔ عصمت چغتائی کی کہانی لحاف اور دیگر افسانوں میں نہ صرف مسلم خاندان کی سگبگاتی عورتوں کی دلخراش داستانیں ہیں بلکہ عصمت کے یہاں نسائی زبان کا بھی بہترین استعمال ہے۔ یہ عرض کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ بانو مشتاق کو بوکر انعام دیتے ہوئے جیوری کے ذریعے ان کے افسانوں میں استعمال ہونے والی عورتوں کی زبان کو بھی سراہا گیا۔ بانو مشتاق پیشے سے وکیل ہیں اور ادب میں وکیلوں نے بہت پہلے اپنی ذہانت کا لوہا منوا لیا ہے۔ کافکا بھی وکیل ہی تھے۔
انعام سے نوازتے وقت کمیٹی کے منصفین میں سے ایک میکس پورٹر نے اعتراف کرتے ہوئے کہا یہ کہ “یہ کہانیاں انگریزی قارئیں کے لیے کچھ نیا مہیا کراتی ہیں۔”
اردو میں جس طرح منٹو، عصمت، سجاد ظہیر اور دیگر مصنفین کو اپنے ہی کمیونٹی سے انفصال کا عذاب جھیلنا پڑا اسی طرح کنڑ زبان کی تخلیق کار بانو مشتاق اور ان کے پورے کنبے کو بھی سن دو ہزار میں
بائیکاٹ کا مقابلہ کرنا پڑا کیوں کہ بانو مشتاق خواتین کے مسجدوں میں داخلے کی وکالت کرتی رہی ہیں۔
بوکر پرائز نے بانو مشتاق کو انعام کے لیے منتخب کر اپنی ویب سائٹ پر سینوپسس میں لکھا ہے:
“’ہارٹ لیمپ‘ کی بارہ کہانیوں میں، بانو مشتاق نے جنوبی ہند کی مسلم بستیوں میں عورتوں اور بچیوں کی روزمرہ کی زندگی کو اس خوبصورتی اور باریکی سے رقم کیا ہے کہ وہ محض کہانیاں نہیں رہتیں، جیتی جاگتی تصویریں بن جاتی ہیں۔ خشک مگر لطیف طنز و مزاح سے بھرپور یہ خاکے، جہاں خاندان اور سماج کے تناؤ کو نمایاں کرتے ہیں، وہیں قدامت پسند حلقوں کی تنقید کا نشانہ بھی بنے اور ملک کے سب سے بڑے ادبی انعامات کے حقدار بھی ٹھہرے۔
یہ نثر ایک ہی وقت میں شوخ، رنگین، روزمرہ بول چال کی حامل، دل کو چھو لینے والی اور تیکھے طنز سے لبریز ہے۔ مگر اصل کمال بانو مشتاق کے کرداروں میں ہے — چمکتے دمکتے بچے، دلیر دادیاں، مسخرہ مولوی اور بدمعاش بھائی، مجبور شوہر اور سب سے بڑھ کر وہ مائیں، جو اپنے جذبات کی قیمت اپنی ہستی سے چکاتی ہیں — جن کے ذریعے بانو مشتاق نہ صرف انسانی فطرت کی بےمثال نبّاض بن کر ابھرتی ہیں، بلکہ بولی جانے والی زبان کے تخلیقی استعمال سے جذبات کی وہ بلندی پیدا کرتی ہیں جو قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔
یہ کہانیاں ہمیں صرف عورتوں کی دنیا میں نہیں لے جاتیں، بلکہ ایک پورے تہذیبی منظرنامے میں داخل کر دیتی ہیں، جہاں دکھ اور مزاح ایک دوسرے سے لپٹے ہوتے ہیں۔”
اس synopsis میں استعمال ہونے والے الفاظ کے انتخاب پر بوکر پرائز کمیٹی کی جرأت بھی قابل غور ہے جہاں مسلم مذہبی رہنماؤں کے لیے “Buffoonish Maulvis” کا واضح استعمال ملتا ہے جس کا اردو معنی مسخرہ اور جوکر ہو سکتا ہے اور انگریزی متبادل کے طور پر
clownish, ridiculous, fooliss
وغیر جیسے الفاظ دیکھے جا سکتے ہیں۔ مولویوں کو ویلن بنانے کی روایت خود اردو شاعری اور نثر میں بھی بے حد طویل اور مقبول ہے۔ زاہد، محتسب، ملا، اور ناصح جیسے کردار ہمارے یہاں پہلے سے مشہور و متعارف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان تمام بین الاقوامی ادبی محافل و مراکز میں اردو کہاں کھڑی ہے جبکہ ہمارے یہاں بھی بنیادی مذہبی کٹر پنتھی کے خلاف آواز بلند کرنے کی روایت بہت پہلے سے موجود و مقبول ہے۔
جب کشور ناہید اہل جبہ کی تمکنت سے رعب نہیں کھانے کی بات کرتی ہیں، جب عصمت حاجی کی اغلام بازی کو بے نقاب کرتی ہیں، اور جب اکثر شعرائے اردو مولانا کو ویلنائز کرتے ہیں تب بین الاقوامی اداروں کی بینائی کمزور کیوں ہو جاتی ہے؟
بانو مشتاق نے انعام حاصل کرتے ہوئے کہا: “یہ صرف میری ذاتی کامیابی نہیں بلکہ اس بات کی تصدیق ہے کہ جب ہم تنوع کو قبول کرتے ہیں، ایک دوسرے کے فرق کو سراہتے ہیں اور ایک دوسرے کو سننے کی کوشش کرتے ہیں، تبھی ایک عالمی کمیونٹی کے طور پر ہم ترقی کر سکتے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا: “ایک ایسی دنیا میں جو ہمیں تقسیم کرنے پر تُلی ہے، ادب وہ مقدس جگہ ہے جہاں ہم ایک دوسرے کے ذہنوں میں زندہ رہ سکتے ہیں۔”
دیپا بھسٹی نے ترجمے کے بارے میں کہا: “میں اسے ’لہجے کے ساتھ ترجمہ‘ کہتی ہوں، جو قاری کو یاد دلاتا ہے کہ وہ کسی زبان کو بنا غیر مانوس بنائے کسی دوسری ثقافت کی کہانی پڑھ رہا ہے۔”
یہ ترجمہ ایک “ریڈیکل ترجمہ” کہلائے گا — ایک ایسا ترجمہ جو صرف زبان کا پل نہیں بناتا بلکہ ثقافت، جذبات اور جدوجہد کو بھی پوری ایمانداری سے منتقل کرتا ہے۔
یہ کامیابی ہمیں یاد دلاتی ہے: ترجمہ محض ایک ادبی عمل نہیں، بلکہ ایک ثقافتی مشن بھی ہے۔
