اعظم خان کی تاریخی رہائی: سیاسی مستقبل پر سب کی نظریں

اعظم خان 23 ماہ بعد جیل سے رہا، بی ایس پی شمولیت پر خاموش، اکھلیش نے مقدمات واپسی کا وعدہ کیا، سیاسی ہلچل جاری۔
لکھنؤ کی سیاسی فضاؤں میں منگل کے روز اس وقت ہلچل دیکھنے کو ملی جب سماج وادی پارٹی کے سینئر لیڈر اور سابق کابینہ وزیر اعظم خان تقریباً 23 ماہ بعد جیل سے باہر آئے۔ دوپہر تقریباً بارہ بجے وہ سیتا پور جیل کے مرکزی دروازے سے اپنی گاڑی میں سوار ہوئے اور باہر موجود حامیوں کی طرف ہاتھ ہلا کر ان کا شکریہ ادا کیا۔ مقررہ وقت کے مطابق انہیں صبح نو بجے رہا ہونا تھا لیکن ایک مقدمے میں عائد جرمانے کی ادائیگی نہ ہونے کے باعث رہائی میں تاخیر ہوئی۔ بعدازاں رام پور کی عدالت میں جرمانہ ادا کیے جانے کے بعد ضروری کاغذی کارروائی مکمل ہوئی اور جیل انتظامیہ کو رہائی کی اطلاع دی گئی، یوں وہ بالآخر آزاد فضا میں سانس لینے کے قابل ہوئے۔
اعظم خان نے اکتوبر 2023 سے سیتا پور جیل میں اپنی سزا کاٹنا شروع کیا تھا اور طویل مدت تک وہ عوامی سیاست سے کٹ کر رہے۔ رہائی کے موقع پر ان کے وکیل زبیر احمد خان نے یاد دلایا کہ موکل نے تقریباً دو سال جیل کی سختیاں برداشت کی ہیں۔ اعظم خان کی سیاسی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ ایک طویل عرصے سے اتر پردیش کی سیاست میں مرکزی حیثیت رکھتے آئے ہیں۔ 1989 میں وہ پہلی بار ریاستی کابینہ کے وزیر بنے اور لیبر، روزگار، مسلم وقف اور حج جیسے اہم محکمے ان کے زیر نگرانی رہے۔
جیل سے باہر آتے ہی جب صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ بہوجن سماج پارٹی میں شامل ہوں گے، تو انھوں نے مختصر جواب دیا کہ جو لوگ قیاس آرائیاں کر رہے ہیں وہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پانچ برس تک دنیا سے بالکل کٹے رہے کیونکہ جیل میں نہ ملاقات کی سہولت تھی اور نہ فون کرنے کی اجازت۔ اس دوران انھوں نے بیرونی سیاست پر کوئی رابطہ نہیں رکھا۔ان کی رہائی پر سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پارٹی اور ان کے حامیوں کے لیے خوشی کا دن ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے وعدہ کیا کہ جب سماج وادی پارٹی حکومت میں آئے گی تو اعظم خان کے خلاف قائم تمام مقدمات واپس لے لیے جائیں گے کیونکہ وہ پارٹی کے بانی رکن ہیں اور ان کا کردار غیر معمولی رہا ہے۔ اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے اعظم خان نے محتاط رویہ اپنایا اور کہا کہ اس بارے میں وہ زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔
اعظم خان نے ماضی میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں اور 2003 سے 2007 تک مختلف اہم محکموں جیسے پارلیمانی امور، شہری ترقی اور غربت کے خاتمے پر کام کیا۔ 2012 میں جب اکھلیش یادو وزیر اعلیٰ بنے تو اعظم خان کو ایک بار پھر شہری ترقی سمیت کئی کلیدی محکمے دیے گئے۔ آج کی رہائی ان کی سیاسی زندگی میں ایک نیا موڑ سمجھی جا رہی ہے۔