غزہ میں امدادی مراکزپر حملے،بھوک و پیاس سے بچوں کی زندگی خطرے میں

غزہ میں امداد لینے آئے فلسطینیوں پر اسرائیلی فائرنگ سے 35 افراد جاں بحق، جب کہ خوراک و پانی کی شدید قلت بچوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
غزہ میں انسانی بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ غذائی امداد حاصل کرنے کے لیے جمع ہونے والے نہتے فلسطینی شہریوں پر ایک بار پھر اسرائیلی فورسز نے فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں جمعہ کے روز کم از کم 35 افراد جاں بحق ہو گئے۔ ان حملوں نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ امدادی مراکز اب محفوظ مقامات نہیں رہے، بلکہ معصوم جانوں کے لیے موت کا مرکز بن چکے ہیں۔غزہ میں خوراک کے ساتھ ساتھ صاف پانی کی شدید قلت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ علاقے میں پانی صاف کرنے والے 40 فیصد مراکز غیر فعال ہو چکے ہیں، جس سے بچوں کے لیے پیاس ایک نئی ہلاکت خیز حقیقت بن سکتی ہے۔
یونیسیف کے مطابق نہ صرف بھوک بلکہ پانی کی قلت کی وجہ سے بھی بچوں کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ صرف مئی کے مہینے میں 6 ماہ سے 5 سال کی عمر کے 5,119 بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہوئے، جب کہ اپریل میں یہ تعداد 3,444 تھی۔ ان میں سے بیشتر بچوں کو علاج کی ضرورت ہے، لیکن اسپتالوں میں دواؤں کی شدید قلت ہے، جس کے باعث معیاری طبی امداد ممکن نہیں ہو پا رہی۔اسرائیلی پابندیوں کے باعث خوراک اور ادویات کی فراہمی معطل ہے، جس سے غزہ کے بچے بدترین حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں، مگر عملی اقدامات کی کمی نے بحران کو سنگین تر بنا دیا ہے۔