مصنوعی ذہانت اور بدلتی دنیا

پروفیسر جمال نصرت
دنیا میں تبدیلیاں ہمیشہ آتی رہی ہیں۔ تاریخ کے ہر دور میں انسان نے اپنے حالات، رہن سہن اور سوچ کے انداز میں تبدیلی محسوس کی ہے۔ لیکن اگر موجودہ زمانے پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اب یہ تبدیلیاں پہلے کے مقابلے میں نہایت تیز رفتار ہوچکی ہیں۔ پہلے زمانے میں کئی نسلوں کے گزرنے کے بعد فرق دکھائی دیتا تھا۔ دادا، پوتے اور پڑپوتے کے درمیان طرزِ زندگی میں تبدیلی نمایاں ہوتی تھی۔ لیکن اب تو چند سال کے وقفے میں ہی ایسا فرق محسوس کیا جاتا ہے کہ چار سال بڑے بھائی یا چھ سال بڑی بہن اور چھوٹے بچوں کے درمیان رہن سہن، سوچ، پسند ناپسند اور اثر قبول کرنے کے انداز میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ خاص طور پر اسکول کے نصاب، کپڑوں، کھانے پینے اور گفتگو کے طریقے ہی نہیں بلکہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور اثر پذیر ہونے کے میدان میں بھی بڑا فرق آگیا ہے۔
مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) بھی اسی تبدیلی کا ایک اہم پہلو ہے۔ یہ دراصل ایک ایسا طریقہ ہے جس میں مشینوں کو اس حد تک ترقی دی جاتی ہے کہ وہ انسانی دماغ کی طرح سوچ سکیں، فیصلہ کرسکیں اور حالات کو سمجھ کر ردِعمل دے سکیں۔ مشین کو اس صلاحیت تک پہنچانے کے لیے کمپیوٹر کے اندر ایک خاص سافٹ ویئر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ سافٹ ویئر اس وقت تک کا موجود تمام علم اپنے اندر محفوظ رکھتا ہے اور ضرورت پڑنے پر اس علم کو استعمال کرتا ہے۔ یوں یوں لگتا ہے جیسے مشین کے اندر ایک دماغ موجود ہو جو سیکھنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اردو میں گفتگو کر رہا ہے تو مشین میں ایک مخصوص سافٹ ویئر ڈال دیا جائے تو وہی گفتگو فوراً انگریزی یا عربی زبان میں سنی جاسکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کی مدد سے پہچان کرنا، ترجمہ کرنا، بات کو سمجھنا اور سمجھانا، تصویریں محفوظ کرنا، تجزیہ اور فیصلہ کرنا سب ممکن ہے۔ ماضی میں جو موٹی موٹی کتابیں ہفتوں یا مہینوں میں پڑھی جاتی تھیں، اب انھیں چند گھنٹوں بلکہ منٹوں میں سمجھا جاسکتا ہے۔ پہلے اسکول کے امتحان میں نقل روکنے کے لیے دس کمروں میں دس ماسٹر تعینات کیے جاتے تھے تاکہ طلبہ ایک دوسرے سے بات نہ کریں یا نقل نہ کریں۔ لیکن اب اگر امتحان ہال میں صرف کیمرے لگا دیے جائیں تو وہی کیمرے طلبہ کی حرکت پر خودکار طور پر نمبر کاٹ لیں گے اور اگر کوئی بڑی حرکت کی جائے گی تو پورے نمبر بھی صفر ہوسکتے ہیں۔ یوں اساتذہ یا نگرانوں کی ضرورت کم ہوجائے گی اور طلبہ زیادہ محتاط رہیں گے۔

دوسری مثال کھیتی باڑی کی ہے۔ فرض کریں ہمارے پاس دس قسم کے چاول ہیں اور ہم فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ اس سال کون سا بیج بویا جائے تاکہ کم خرچ میں زیادہ منافع حاصل ہو۔ تو اب کسان کو صرف یہ سوال سافٹ ویئر میں ڈالنا ہوگا اور چند لمحوں میں یہ سافٹ ویئر درست نتیجہ بتادے گا کہ کون سا بیج زیادہ مفید رہے گا۔ اسی طرح آج کے دور میں تو ڈرائیور کے بغیر گاڑیاں بھی چلنے لگی ہیں جو خود بخود سڑک کو پہچان کر چلتی ہیں۔
اب ذرا ایک اور سوال پر غور کریں۔ اگر ہمیں ایک ہی دن میں دس بڑی کتابیں پڑھنی ہوں تو کیا کیا جائے؟ ظاہر ہے کہ اگر دس لوگ بھی لگا دیے جائیں تو بھی وہ سب باتیں سمجھانے اور بتانے میں وقت لیں گے۔ لیکن مصنوعی ذہانت کی مدد سے یہ ممکن ہے کہ ان کتابوں کا خلاصہ یا مفہوم فوراً حاصل کرلیا جائے اور اصل تفصیل کمپیوٹر یا ڈیجیٹل نظام میں محفوظ کردی جائے، جسے جب چاہیں دوبارہ دیکھا جاسکتا ہے۔اسے ہم ایک مثال سے مزید واضح کرسکتے ہیں۔ مثلاً فلم “مغلِ اعظم” کی کہانی لیجیے: بادشاہ چاہتا تھا کہ اس کی سلطنت خوشحال ہو اور لوگ ترقی کریں۔ لیکن ولی عہد نے ایک لڑکی کی محبت کو ترجیح دی اور اس معاملے میں باپ کے خلاف بھی کھڑا ہوگیا۔ یہاں تک کہ جنگ ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ولی عہد کو شکست ہوئی اور بادشاہ نے لڑکی کو سلطنت سے نکال باہر کیا۔
ایک اور مثال فلم “شعلے” کی ہے، جو ہندوستان کی مشہور فلم ہے۔ اس میں ایک خونخوار ڈاکو کو ایک پولیس افسر نہایت بہادری سے گرفتار کرتا ہے۔ لیکن وہ ڈاکو جیل سے فرار ہوکر افسر کے گھر والوں کا قتل کردیتا ہے۔ افسر بدلہ لینے میں اپنے دونوں ہاتھ گنوا بیٹھتا ہے۔ تاہم دوسرا ساتھی اس ڈاکو پر قابو پالیتا ہے۔ آخرکار وہ ڈاکو دوبارہ جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور اس پر قتل کا مقدمہ قائم ہوتا ہے۔
اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت دنیا کے لیے اچھی ہے یا بُری۔ بظاہر تو یہ ایک نہایت مفید چیز ہے، بشرطیکہ اسے مثبت سوچ اور نیک مقصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ لیکن اگر اس کا غلط استعمال کیا گیا تو یہ دنیا کے لیے بڑی مصیبت بھی بن سکتی ہے۔ امیر لوگ یا بڑی کمپنیاں جو اس ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کرپائیں گی وہ زیادہ منافع کمائیں گی۔ غریب اور عام لوگ پیچھے رہ جائیں گے۔ یوں بھی آج دنیا میں امیروں کی تعداد بہت کم ہے جب کہ اکثریت مشکلات اور غربت کا شکار ہے۔ نوکریوں کے پرانے طریقوں پر برا اثر پڑے گا اور کئی ملازمتیں ختم ہوسکتی ہیں، اگرچہ نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے لیکن وہ کم ہوں گے۔
آج دنیا کے سامنے سب سے اہم سوالات اور مسائل یہ ہیں: بڑھتی ہوئی آبادی، غربت، آلودگی اور پانی کی کمی۔ اگر ان مسائل پر بھی قابو صرف امیر طبقہ پائے گا تو باقی انسانوں کی آزادی خطرے میں پڑ جائے گی۔ یوں یہ خطرہ ہوگا کہ عام لوگ غلاموں کی طرح صرف ان کے لیے کام کریں۔ اس بارے میں سائنس دانوں کی رائے بھی تقسیم ہے۔ کچھ اسے انسانیت کے لیے ترقی کا نیا دروازہ سمجھتے ہیں جب کہ کچھ اسے مستقبل کی تباہی کی پیش گوئی قرار دیتے ہیں۔اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ مصنوعی ذہانت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور استعمال میں لاتے ہیں۔
