ادب سرائے

ناقابل فراموش داستانِ محبت

محمد شرافت حسین سعیدی
یہ داستان ایک ایسے نوجوان کی ہے جس کی شخصیت میں دلکشی، جرات، اور شرافت کے تمام رنگ موجود تھے۔ وہ لشکروں کا سپہ سالار، اپنی قوم کی امید اور بہادری کی علامت تھا۔ اس کا چہرہ چاند کی مانند روشن اور اس کی پیشانی نورِ طہارت سے منور تھی۔ اس کے حسن و جمال کا عالم یہ تھا کہ جو ایک بار دیکھتا، اسے بار بار دیکھنے کی خواہش دل میں جاگ اٹھتی۔ اس کی مسکراہٹ میں پھول کھلتے اور اس کی باتوں میں موتیوں کی جھلک دکھائی دیتی۔
وہ ایسا بہادر تھا کہ دشمنوں کے لشکر اس کا نام سن کر کانپ اٹھتے۔ مگر اس کی زندگی کا ایک پہلو ایسا بھی تھا جس سے صرف چند لوگ واقف تھے۔ اس کے دل کے نہاں خانوں میں محبت کا ایک گوشہ جاگ چکا تھا، جو اسے دنیا کی سب سے حسین دوشیزہ کی طرف کھینچ رہا تھا۔
جس گاؤں میں یہ نوجوان خیمہ زن تھا، وہاں ایک شریف النفس بڑھئی اپنی جواں سال بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کی بیٹی کا نام درخشاں تھا۔ وہ حسن و اخلاق کا پیکر تھی، چہرہ ایسا روشن جیسے کسی نے چاندنی کا غازہ مل دیا ہو، اور آنکھیں ایسی گہری کہ دیکھنے والا اس کی معصومیت میں کھو جائے۔ اس کی ہر ادا میں دلکشی اور ہر بات میں نرمی تھی۔ علم و حکمت، ذہانت و شرافت اور شرم و حیا میں اپنی مثال آپ تھی۔ پورا گاؤں اس کی پاکیزگی اور اخلاق کا قائل تھا۔
درخشاں کا معمول تھا کہ وہ روزانہ باغ کی طرف لکڑیاں چننے جاتی۔ ایک دن وہ نوجوان کے خیمے کے قریب سے گزری، اور پہلی بار اس کی نگاہ اس دوشیزہ کے چہرے پر پڑی۔ وہ لمحہ اس کی زندگی کا محور بن گیا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے وقت تھم گیا ہو، اور زمین و آسمان اس کے ارد گرد سمٹ آئے ہوں۔ درخشاں کے چہرے کی چاندنی نے اس کے دل کی دنیا میں ایسا چراغ روشن کیا کہ محبت کی روشنی سے ہر گوشہ جگمگا اٹھا۔
درخشاں بھی اس نوجوان کے جلال و جمال اور شرافت و پارسائی کی دیوانی ہو گئی۔ اس کی نگاہوں کی حیا اور دل کی پاکیزگی نے درخشاں کے دل میں محبت کی ایسی شمع روشن کی جس کی لو کبھی مدھم نہ پڑی۔
یہ خبر گاؤں بھر میں پھیل گئی کہ دو پاکیزہ دل محبت کے بندھن میں بندھ چکے ہیں۔ گاؤں کے بزرگوں نے دونوں کے نکاح کا فیصلہ کر لیا، اور شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ درخشاں کے گھر خوشیوں کا سماں تھا۔ اس کی سہیلیاں ڈھولک پر گیت گاتی اور محبت کے گیتوں میں اس کے دل کی بے قراری کو ہوا دیتیں۔
مگر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ شادی سے چند دن قبل سلطنت میں جنگ کا اعلان ہوا۔ نوجوان کو اپنی قوم کی حفاظت کے لیے میدانِ جنگ روانہ ہونا پڑا۔ وہ دل پر محبت کا بوجھ اور فرض کا عزم لیے روانہ ہو گیا۔
درخشاں کا دل انتظار کی آگ میں جلنے لگا۔ وہ ہر روز اس راستے کی طرف دیکھتی، جہاں سے نوجوان روانہ ہوا تھا، اور سوچتی کہ وہ کسی دن فتح کا علم اٹھائے واپس آئے گا۔ وہ گاؤں کے ہر شخص سے یہ سوال کرتی کہ جنگ کے میدان سے واپسی کا راستہ کتنا طویل ہے۔
مگر پھر ایک دن جنگ کی خبر آئی، جس نے درخشاں کی دنیا بدل دی۔ بتایا گیا کہ وہ نوجوان میدانِ جنگ میں شہادت کا جام پی چکا ہے۔ یہ سن کر درخشاں کا دل گویا ٹوٹ گیا۔ اس کی آنکھیں خشک رہیں، مگر دل خون کے آنسو بہاتا رہا۔ اس کا خواب مرجھا گیا، اور وہ تمام عمر اپنی محبت کی یاد کو دل سے لگائے جیتی رہی۔
لوگوں نے اسے سمجھایا، زبردستی اس کا رشتہ کروانے کی کوشش کی، مگر وہ کسی اور کے ساتھ زندگی گزارنے پر تیار نہ ہوئی۔ اس کے بالوں کی چمک رفتہ رفتہ سفید ہو گئی، مگر اس کا دل ہمیشہ اپنے محبوب کے نام سے روشن رہا۔
یہ داستان اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ سچی محبت اپنے رنگ کبھی نہیں کھوتی، اور دل کے وہ چراغ جو اخلاص کی لو سے جلیں، وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

ادب سرائے

ممتاز نیر : شخصیت اور شاعری( شعری مجموعہ ‘ وفا کے پھول ‘ کے تناظر میں )

احسان قاسمی کچھ لوگ ملٹی وٹامن ملٹی مِنرل کیپسول جیسے ہوتے ہیں ۔ بظاہر ایک کیپسول ۔۔۔۔ لیکن اگر اس
ادب سرائے

مظفر ابدالی كی شاعری پر ایك نظر(صفر سے صفر تك كے حوالے سے)

وسیمہ اختر ریسرچ اسكالر:شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی اردو شاعری کا سفر کئی صدیوں سے جاری ہے جس میں