سیمانچلی تہذیب کی امین کتاب:سیمانچل کے افسانہ نگار

طیب فرقانی
سیمانچل ایک جغرافیائی خطہ ہے جو قدیم پورنیہ کمشنری کا علاقہ ہے. اس کا ایک چھوٹا سا حصہ آزادی ہند کے بعد مغربی بنگال کا حصہ بھی بنا. اور باقی حصوں کو ارریہ، پورنیہ، کٹیہار اور کشن گنج جیسے اضلاع میں تقسیم کردیا گیا. اس یاد دہانی کی ضرورت اس لیے پڑی کہ زیر نظر کتاب میں شامل افسانہ نگاروں کا تعلق اس پورے خطے سے ہے. احسان قاسمی نے اس کتاب میں اس علاقے کے افسانہ نگار کو بھی شامل کیا ہے جو مغربی بنگال کا حصہ ہے.
احسان قاسمی نے سیمانچل کو جیا ہے. ان کا آبائی وطن بارسوئی، کٹیہار ہے. ان کی تعلیمی سرگرمیاں بھی اسی علاقے میں رہیں. انھوں نے سیمانچل کے مختلف علاقوں میں اپنی ملازمت کے سلسلے میں بھاگ دوڑ کی اور بالآخر پورنیہ شہر کو اپنا مستقل مسکن بنایا. اس زاویے سے دیکھیں تو سیمانچل پر ایسی معتبر کتاب پیش کرنے کا انھیں حق تھا، اور یہ حق انھوں نے بہ خوبی نبھایا. میں نے فرض لفظ نہیں لکھا، کیوں کہ یہ فرض ان کے جیسے دوسرے لوگوں پر بھی تھا. اور کئی لوگوں نے یہ فرض ادا کرنے کی کوشش بھی کی ہے. سر دست احمد حسن دانش اور حقانی القاسمی کا نام لے سکتے ہیں. انھوں نے یہاں اردو آبادی سے مکالمہ قائم کیا اور تاریخ کے اوراق میں گم افراد کو روشنی میں لانے کی کوششیں بھی کیں.
احسان قاسمی کی زیر نظر کتاب اس معنی میں ان سب سے منفرد ہے کہ انھوں نے نثری ادب کی تخلیقی صنف افسانہ نگاری کے زمرے میں آنے والے اب تک کے سبھی قابل ذکر قلم کاروں کو اس کتاب میں شامل کر لیا ہے. قابل ذکر اس لیے کہ انھوں نے تحقیق کے ساتھ تنقیدی بصیرت کو بھی بروئے کار لایا. افسانہ اور انشائیہ کے فرق کو واضح رکھا.
بہت سے نئے لکھنے والے جنھیں فن کی خوب سمجھ نہیں ہوتی افسانہ سمجھ کر انشائیہ لکھ دیتے ہیں، احسان قاسمی نے یہ کتاب مرتب کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا ہے کہ اس میں افسانہ نگار ہی شامل ہوں، نہ کہ انشائیہ نگار. یہی وجہ ہے کہ انھیں کئی قلم کاروں کو قلم انداز کرنا پڑا.
ایک مشکل یہ بھی ہوئی کہ کئی قلم کاروں کی تخلیقات کی اشاعت کی خبر تو ہے لیکن متن دست یاب نہیں ہے، ایسے میں انھیں بھی اس کتاب میں شامل نہیں کیا جاسکا ہے. کیوں کہ اس کتاب میں ہر قابل ذکر افسانہ نگار کا ایک افسانہ بھی شامل ہے. اس لیے یہ کتاب صرف تحقیق نہیں بلکہ تخلیق سے بھی تعلق رکھتی ہے. بلکہ یہ کہیں کہ یہ کتاب افسانہ نگاروں سے زیادہ افسانوں کی کتاب ہے تو غلط نہ ہوگا.
افسانوں کے متن کو قدیم سے جدید کی طرف ارتقائی طور پر مرتب کیا گیا ہے. یعنی سب سے پہلے اس افسانہ نگار اور اس کے ایک افسانے کا متن شامل کیا گیا ہے جس کی تاریخ پیدائش سب سے قدیم ہے. اس کتاب میں شامل سب سے پہلا افسانہ عبدالمنان ابن امین جھومکاوی کا “کامیاب عشق” ہے. یہ افسانہ ماہ نامہ نہار، کشن گنج میں شایع ہوا تھا. سنہ اشاعت جنوری 1938 ہے. اس طرح دیکھیں تو یہ کتاب سیمانچل کی افسانوی تاریخ کے تقریباً 80 سالہ منظرنامے کا احاطہ کرتی ہے. اور متن کی شمولیت سے ہمیں اس پورے عہد کی لسانی، فکری اور فنی جہتوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے. ہمیں عہد بہ عہد زبان کے بدلاؤ اور ارتقا کا اندازہ ہوتا ہے، موضوعات و مسائل کے تنوع کا بھی اندازہ ہوتا ہے. مثلاً امین جھومکاوی کے افسانے سے چند جملے ملاحظہ فرمائیں :
(1) یہ وہی مرغ بسمل ہے جو مجھ سے چہار چشمی کرتے ہی لب راہ گر کر مدہوش تھا.
(2)پریت نہ بوجھے اوچھی ذات
(3) چہار چشمی ہوتے ہی ایک تیر تھا کہ شمشاد کے دل میں چبھ گیا.
یہ عشقیہ بیانیہ ہے اور داستانوں کی کیفیت رکھتا ہے. یہی وجہ ہے کہ اس افسانے میں اشعار بھی متن کا حصہ بنے ہیں. بعد کے افسانوں میں مسائل و موضوعات کی تبدیلی نے زبان میں بھی زیادہ حقیقت پسندی کا لہجہ بھردیا ہے.
تحریکات و رجحانات مثلا ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے نقوش بھی ان افسانوں میں نظر آتے ہیں.
احسان قاسمی نے یہ التزام کیا ہے کہ افسانوں کے وہی متون پیش کیے جائیں جن کا تعلق کسی نہ کسی جہت سے سیمانچل سے ہو. یعنی یہ کہانیاں سیمانچل کے کرداروں کی ہو، یہاں کی مٹی کی بو اس میں شامل ہو، یہاں کے سماج کی فکر، تہذیب اور زندگی کرنے کے رویے پر روشنی پڑتی ہو. اس طرح یہ کتاب پورے سیمانچل کے سماجی، تہذیبی اور ثقافتی منظرنامے کی بھی امین بن جاتی ہے. یہ کتاب یہ بھی بتاتی ہے کہ یہاں کے تخلیق کاروں کے درمیان ہر عہد میں کون کون سے رسائل و جراید مقبول رہے ہیں اور ان کی نوعیت کیا ہے. یہ جان کر آپ کو خوش گوار حیرت ہوگی کہ آزادی سے قبل اس علاقے سے کئی ایک ماہ نامے جاری تھے، جن کا سلسلہ درمیان میں ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور پھر سے قائم ہوتا ہوا بھی محسوس ہوتا ہے. رسالہ بیسویں صدی یہاں بہت پہلے سے مقبول رہا ہے. اور اکثر افسانہ نگاروں کی تخلیقات اس رسالے میں شایع ہوئی ہیں.
افسانہ نگاروں میں زیادہ تر تو وہ لوگ ہیں جو سیمانچل کی مٹی سے ہی اٹھے، کچھ لوگ وہ ہیں جو بہار، یوپی کے دوسرے علاقوں سے یہاں آئے اور یہیں کی مٹی کے ہورہے، اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو یہاں کی مٹی میں ایک لمبے عرصے تک علمی و ادبی زرخیزی پیدا کرتے رہے. اس طرح یہ کتاب سیمانچل کی حدوں سے باہر بھی نکل جاتی ہے. اور اردو کی ایک بڑی آبادی کا احاطہ کرتی ہے.
شمیم ربانی کشن گنج کے ہر دل عزیز سیاسی و ملی رہ نما رہے، ان کے والد تجارت کے سلسلے میں مظفر پور سے یہاں آئے اور یہیں بس گئے. شمیم ربانی نے 1960 کی دہائی میں کشن گنج اور کٹیہار سے پیام سحر اور فانوس جیسے ماہ ناموں کا اجرا بھی کیا. یعنی یہ کل وقتی ادیب تھے. اسی طرح طارق جمیلی کا آبائی وطن مظفر پور، احمد حسن دانش کا آبائی وطن بھاگل پور اور اصغر راز فاطمی کا آبائی وطن مظفر پور ہے. یہ حضرات یہاں بہ طور کالج لیکچرار آئے اور پھر اسی مٹی کے ہورہے. اسی طرح گوہر رفیع شاذ کا تعلق سیوان ضلع سے ہے.
احسان قاسمی نے ان افسانہ نگاروں کے لیے الگ سے خصوصی گوشہ قائم کیا ہے جو ملازمت کے سلسلے میں برسوں سیمانچل میں مقیم رہ کر اردو زبان و ادب کی آبیاری کرتے رہے. معروف و معتبر فکشن نگار و ادیب کلام حیدری کا آبائی وطن گیا ضلع ہے، وہ 1952 سے 1959 تک پورنیہ کالج کے شعبۂ اردو میں لیکچرر رہے. ان کے افسانوں کا مجموعہ “بے نام گلیاں اور دوسری کہانیاں” اسی دوران شایع ہوا. اسی طرح شفیع مشہدی کا بھی آبائی مکان گیا ضلع ہے. وہ ارریہ میں ایڈیشنل سپلائی افسر کے طور پر تعینات رہے. علی امام 1972 سے 1982 تک انسان اسکول کشن گنج میں سائنس کے استاد کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں. 1985 میں ان کا افسانوی مجموعہ “نہیں” شایع ہوا. اس کے بعد بھی ان کے افسانوی مجموعے شایع ہوئے. اس کتاب میں شامل ان کا افسانہ “نی” فکر و فن کا بہترین نمونہ ہے. یہ کہانی کشن گنج شہر اور اس کے اہالیان کی ہے. وہ اس شہر کا نام تو نہیں لیتے لیکن اس کے اشارے ملتے ہیں. مثلا یہ اقتباس دیکھیں :
“یہ شہر نیپال، بنگلہ دیش اور مغربی بنگال کی سرحد پر واقع ہے.
اس شہر کو ایک ندی درمیان سے دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے. اس ندی پر جگہ جگہ آمد و رفت کے لیے پل بنادیے گئے ہیں. چوڑی پٹی سے سونار پٹی تک جانے کے لیے ایک پل سے گزرنا پڑتا ہے. “
اگر آپ کشن گنج شہر سے واقف ہیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا چوڑی پٹی سے سنار پٹی تک جانے کے لیے کون سا پل عبور کرنا پڑتا ہے.
سید اظہار عالم کا تعلق موتیہاری ضلع سے تھا، وہ پورنیہ اور کشن گنج میں کوسی علاقائی دیہی بینک کے سینیر مینیجر کے طور 1979 سے 2005 تک اپنی خدمات پیش کرتے رہے. انھوں نے ایک ناولٹ بھی لکھا ہے.
اس کتاب کو خواتین افسانہ نگاروں کے زاویے سے بھی دیکھ سکتے ہیں. اس کتاب میں چار خاتون افسانہ نگاروں اور ان کے افسانوں کو شامل کیا گیا ہے. نزہت طارق ظہیری پروفیسر طارق جمیلی مرحوم کی شریک حیات ہیں. یہ خاتون خانہ تھیں اور سیمانچل میں نسائی ادب کی پائنیر کی حیثیت رکھتی ہیں. ان کا افسانوی مجموعہ “ایک روٹی سات پہاڑ” 2007 میں شایع ہوا. شائستہ انجم نوری مشتاق احمد نوری کی شریک حیات ہیں. انھوں نے ٹی پی ایس کالج پٹنہ میں پروفیسر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں. افسانہ نگاری کے علاوہ ان کی دوسری جہتیں بھی ہیں. نیلوفر پروین (ارریہ) رفیع حیدر انجم کی شریک حیات ہیں. ان کا افسانوی مجموعہ “جوہی کی کلی” اس کتاب کی اشاعت کے بعد منظر عام پر آیا. عرشی خاتون نئی نسل سے تعلق رکھتی ہیں اور ڈی ایس کالج کٹیہار میں گیسٹ فیکلٹی رہی ہیں.
اسی طرح یہ کتاب ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ سیمانچل میں غیر مسلموں نے کس طرح اردو زبان و ادب کی خدمت کی ہے. پرمود بھارتیہ سنسکرت کے پروفیسر ہیں اور کئی زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں. اردو افسانوی ادب کی بھی انھوں نے خدمت کی ہے. ان کا تعلق کشن گنج کے ٹھاکر گنج علاقے سے ہے اور ان کا افسانوی مجموعہ بھی شایع ہوچکا ہے.
احسان قاسمی نے اپنی کتاب کو صرف تحقیق اور تدوین تک محدود نہیں رکھا بلکہ انھوں نے کتاب کا ایک حصہ ان افسانہ نگاروں کے فکر و فن پر لکھے مضامین کے لیے بھی مختص کیا، جس سے ہمیں ان افسانہ نگاروں کی قدر و قمیت کا اندازہ ہوتا ہے. جن افسانہ نگاروں پر اس کتاب میں مضامین شامل ہیں ان کی فہرست ملاحظہ فرمائیں :
شمس جمال، شمیم ربانی (از احمد حسن دانش)
طارق جمیلی (از رفیع حیدر انجم)
نزہت طارق ظہیری (از احمد حسن دانش)
احمد حسن دانش ( از رفیع حیدر انجم)
مشتاق احمد نوری پر چار مضامین (از طارق جمیلی، ذکیہ مشہدی، حقانی القاسمی، ڈاکٹر ابوبکر عباد)
اصغر راز فاطمی (از احسان قاسمی)
رفیع حیدر انجم پر تین مضامین (از حقانی القاسمی، خواجہ نسیم اختر، احسان قاسمی)
احسان قاسمی پر چار مضامین ( از طارق جمیلی، رفیع حیدر انجم، قسیم اختر، اویناش امن)
نیلوفر پروین پر دو مضامین (احمد حسن دانش، احمد علی جوہر)
ممتاز نیر از جہانگیر نایاب
پرمود بھارتیہ از ارتضیٰ کریم
مستحسن عزم از احسان قاسمی
میں نے تو کتاب کا صرف زایچہ پیش کردیا ہے اصل کتاب کا لطف آپ کو کتاب پڑھ کر ہی آسکتا ہے. مشتاق احمد نوری کا افسانہ “لمبے قد کا بونا”، رفیع حیدر انجم کا افسانہ “ہیرامن کی چوتھی قسم” آپ ضرور پڑھیے. لمبے قد کا بونا اپنے موضوع و ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے ممتاز ترین افسانہ ہے. افسانہ “ہیرامن کی چوتھی قسم” رینو کی روایت کو آگے بڑھاتا ہے. جس طرح پریم چند کے کردار ہوری کو سریندر پرکاش نے افسانہ” بجوکا” میں آگے بڑھایا، عصمت چغتائی کے افسانہ “چوتھی کا جوڑا” کی روایت کو نعیمہ جعفری پاشا نے آگے بڑھایا، اسی طرح رفیع حیدر انجم نے پھنیشورناتھ رینو کے کردار ہیرامن کو آگے بڑھایا. اس کی زبان اور فضا کو جس فن کاری سے پیش کیا گیا وہ رفیع حیدر انجم کا ہی حصہ ہے.
ایک اور قابل ذکر بات یہ بھی ہے کئی افسانے اپنے موضوع کے اعتبار سے سیمانچل سے باہر سے بھی تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کا کردار سیمانچلی ہے. مثلاً احسان قاسمی کا افسانہ پرائشچت انہدام بابری مسجد کی کہانی سناتا ہے لیکن اس کے واقعات سیمانچل کی سرزمین پر پیش آتے ہیں. اسی طرح پرویز عالم کا افسانہ ہیومن ٹریفکنگ کی کہانی سناتا ہے لیکن اس کے کردار سیمانچلی ہیں. اس طرح ہم دیکھیں تو یہاں کے افسانہ نگار اہم موضوعات و مسائل سے اپنی واقفیت کا بھی اظہار کرتے ہیں. اور ایک دنیا آباد کیے ہوئے ہیں.
کتاب میں شامل افسانہ نگاروں کی رنگین تصاویر نے اس کی اہمیت کو دوبالا کردیا ہے. کتاب 2020 میں قومی کونسل برائے فروغ اردو، نئی دہلی کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے. جس کے صفحات کی تعداد پانچ سو سے زیادہ ہے. احسان قاسمی خود بھی معتبر افسانہ نگار ہیں، ان کا افسانوی مجموعہ پیپر ویٹ کے نام سے شایع ہوچکا ہے. شاعری بھی ان کا میدان ہے. ان کا شعری مجموعہ “دشت جنوں طلب” کے عنوان سے شایع شدہ ہے. اس کتاب کا انتساب انھوں نے سیمانچل کی دھرتی کے نام کیا ہے.