راہِ ہدایت تحقیق نامہ

اللہ تعالی کی رحمت: تصور سے بالاتر

عفان حق، بدایوں

اللہ تعالیٰ کی رحمت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا احاطہ انسانی عقل سے ممکن نہیں۔ انسان اپنے محدود فہم اور تجربے کی بنیاد پر محبت اور شفقت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن جب بات اللہ تعالی کی رحمت کی آتی ہے تو تمام تراکیب، الفاظ اور تصورات کم پڑ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت نہ صرف اس کی صفاتِ عالیہ میں سے ہے، بلکہ یہ اس کی ربوبیت، الوہیت اور محبت کا ایک کامل مظہر ہے۔

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے خود کو “ارحم الراحمین” اور “غفور الرحیم” کے القاب سے بار بار یاد کیا ہے۔ سب سے پہلی وحی میں بھی انسان کو علم عطا کرنے والے رب کی عظمت کو اجاگر کیا گیا، اور قرآن کا آغاز “بسم اللہ الرحمن الرحیم”سے ہوتا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کے ہر حکم اور ہر فعل کا آغاز بھی اس کی رحمت سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کی رحمت اس قدر وسیع ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالی نے رحمت کے سو حصے بنائے، جن میں سے صرف ایک حصہ دنیا میں نازل فرمایا، جس کے ذریعے ماں اپنے بچے سے محبت کرتی ہے، جانور اپنے بچوں کا خیال رکھتے ہیں اور انسان ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرتے ہیں، جبکہ باقی ننانوے حصے قیامت کے دن اپنے بندوں کے لیے محفوظ رکھے ہیں۔

دنیا میں بھی جب انسان خطا کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ بار بار توبہ کے دروازے کھولتا ہے۔ گناہوں سے بھرے دل کو معاف کر دینا، کفر کے اندھیروں سے نکال کر ایمان کی روشنی تک پہنچا دینا، اور مایوسی کے کنارے سے امید کی وادیوں میں لے آنا، یہ سب اللہ تعالی کی رحمت کے مظاہر ہیں۔

قرآن کہتا ہے:

(الزمر: ۵۳)

یہ آیت بندہ بشر کے لیے ایک ایسی پناہ گاہ ہے جو اس کے ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑ دیتی ہے اور اسے امید کی نئی کرن دکھاتی ہے۔

قیامت کے دن جب ہر شخص اپنے اعمال کے بوجھ تلے دبا ہوا ہو گا، اُس دن اللہ تعالی کی رحمت ہی واحد ذریعہ ہو گی جو انسان کو جہنم سے بچا کر جنت کی طرف لے جائے گی۔

اللہ تعالی کی رحمت ایک ایسی روشنی ہے جو اندھیروں کو مٹا دیتی ہے، ایک ایسا سہارا ہے جو گناہگار کو بھی تھام لیتا ہے، اور ایک ایسا وعدہ ہے جو ہر مایوس دل کو زندگی بخشتا ہے۔ یہ رحمت محض جزا یا سزا سے بڑھ کر ہے، یہ محبت، عفو، اور بے پایاں شفقت کا سمندر ہے جس کی گہرائی کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جس نے خود کو اس کے سپرد کر دیا ہو۔ اس لیے لازم ہے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالی کی رحمت سے وابستہ رہیں، اسی سے امید رکھیں، اسی سے معافی مانگیں، اور اسی پر بھروسہ کریں، کیونکہ واقعی “اللہ تعالی کی رحمت تصور سے بالاتر ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کی رحمت نہ صرف مومنوں تک محدود ہے بلکہ پوری مخلوق کے لیے ہے۔

 قرآن میں فرمایا گیا:

اور میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے۔

(سورۃ الاعراف: ۱۵۶)

یہ آیت ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت کسی خاص گروہ یا طبقے کے لیے مخصوص نہیں بلکہ ہر مخلوق اس کے سائے میں ہے، چاہے وہ مومن ہو یاکافر ، انسان ہو یا حیوان۔

اللہ تعالیٰ کی رحمت کی ایک عظیم الشان مثال اس کی مغفرت ہے۔ قرآن میں بارہا بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے بشرط کہ بندے سچے دل سے توبہ کریں۔

 ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

آپ فرما دیجئے: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے! تم اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ تعالی سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔

 (سورۃ الزمر: ۵۳)

یہ آیت اللہ تعالی کی وسیع رحمت کا ایسا پرنور مظہر ہے کے ناامید دل کو امید سے بھر دیتی ہے۔

اللہ تعالی کی رحمت نہ صرف مغفرت میں ہے بلکہ رزق، ہدایت، شفاء اور نجات میں بھی ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالی نے عقل عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنے کی صلاحیت دی ۔ یہ سب اس کی رحمت ہی کا نتیجہ ہیں۔

اللہ تعالی کی رحمت انسان کو توازن، امید، محبت اور بندگی کی راہ دکھاتی ہے۔ وہ انسان جو اللہ تعالی کی رحمت کو پہچانتا ہے، وہ نہ تو اللہ تعالی کے عذاب سے بے خوف ہوتا ہے اور نہ ہی گناہوں میں ڈوبا مایوسی کا شکار ہوتا ہے۔ قرآن اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت، اس کے عدل کے ساتھ ہے؛ وہ رحم کرنے والا بھی ہے اور انصاف کرنے والا بھی۔ اسی لیے قرآن میں بار بار تقویٰ، توبہ، صبر اور احسان کی تلقین کی گئی ہے تاکہ بندہ اپنے عمل سے اللہ تعالی کی رحمت کا مستحق بنے۔

آخرکار، اللہ تعالی کی رحمت ہی وہ چیز ہے جو روزِ قیامت نجات کا ذریعہ بنے گی۔

قرآن مجید میں اللہ تعالی کی رحمت کا تصور ایک ایسی حقیقت ہے جو نہ صرف بندے کے ایمان کو جلا بخشتا ہے بلکہ اس کے کردار و عمل کو بھی سنوارتا ہے، اور اسے ایک پرامید، بااخلاق اور اللہ تعالی سے وابستہ زندگی گزارنے کی طرف لے جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہماری ہدایت کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام بھیجے، کتابیں نازل فرمائیں، اور سب سے بڑھ کر سید المرسلین حضرت محمد ﷺ کو رحمة للعالمین بنا کر مبعوث فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ اس کی سب سے بڑی رحمت ہیں ، کیونکہ آپ کی تعلیمات نے انسانیت کو جہالت، ظلم، گمراہی اور شرک سے نکال کر ہدایت، انصاف، علم اور توحید کی روشنی عطا کی۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا ہے:

اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔

(سورۃ الانبیاء: ۱۰۷)

یہ اعلان صرف ایک انسانی جماعت یا مخصوص قوم کے لیے نہیں بلکہ پوری کائنات، ہر مخلوق، ہر زمانے اور ہر مقام کے لیے ہے۔

نبی کریم ﷺ نے اپنی عملی زندگی میں اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی    صبر و تحمل، درگزر اور نرمی کا برتاؤ فرمایا۔ فتح مکہ کے موقع پر جب وہ دشمن جنہوں نے آپ کو وطن سے نکالا، ایذائیں دیں، قتل کی سازشیں کیں، آپ کے سامنے کھڑے تھے، تو آپ نے ان سے صرف یہی فرمایا:

"جاؤ، تم سب آزاد ہو”۔ اس بے مثال عفو و درگزر نے ان کے دلوں کو فتح کیا اور وہی دشمن دوست اور وفادار بن گئے۔

آپ ﷺنےاللہ تعالیٰ کی رحمت کا ایک نمایاں پہلو بچوں اور کمزوروں کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کر کے پیش کیا ہے۔ آپ بچوں کو دیکھتے تو ان سے محبت سے پیش آتے، ان کو سلام کرتے، ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے۔ آپ نے فرمایا: "جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کا احترام نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں”۔

اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ایک عظیم پہلوآپ ﷺکے ذریعے امت کے حق میں دعاؤں میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ آپ راتوں کو امت کے لیے روتے، ان کی مغفرت، ہدایت اور سلامتی کے لیے دعائیں کرتے۔

قرآن گواہی دیتا ہے:

بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ﷺتشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور)مومنوں کے لئے نہایت (ہی)شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔

(سورۃ التوبہ: ۱۲۸)

نبی اکرم ﷺ کی پوری زندگی اس بات کی زندہ مثال ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت کس طرح ایک انسان کے قول، فعل، سیرت اور کردار میں جلوہ گر ہو سکتی ہے۔ آپ کی سیرت کا ہر پہلو، ہر لمحہ اور ہر عمل انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ جو شخص سچی طلب کے ساتھ آپ کی سیرت کا مطالعہ کرے، وہ یہ ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آپ ﷺ واقعی اللہ تعالی کی رحمت کا سب سے بڑا مظہر اور کامل نمونہ ہیں۔

لہٰذا اگر ہم اللہ تعالی کی رحمت کے سائے میں آنا چاہتے ہیں تو ہم پر  نبی کریم ﷺ کی سیرت کو اپنانا، آپ کی تعلیمات پر عمل کرنا اور اسکی روشنی میں زندگی کو گزارنا لازم ہے۔ آپ کی ذات نہ صرف ماضی کے لیے رحمت تھی بلکہ آج اور قیامت تک کے لیے بھی انسانیت کی نجات کا ذریعہ ہے۔

اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر لمحہ اور ہر پہلو سے اپنا مظاہرہ کرتی ہے۔ انسان اگر غور کرے تو وہ دیکھے گا کہ اس کی زندگی کا ہر دن، ہر سانس، ہر کامیابی حتیٰ کہ اس کی مشکلات بھی کسی نہ کسی پہلو سے اللہ تعالی کی رحمت کا عکس ہیں۔ اللہ تعالی کی رحمت محض آخرت کی نعمتوں تک محدود نہیں بلکہ دنیاوی زندگی میں بھی اس کے ان گنت مظاہر ہمیں نظر آتے ہیں، بشرطے کہ ہم دل کی آنکھ سے دیکھیں۔

انسان کی پیدائش ہی اللہ تعالی کی ایک عظیم رحمت ہے۔ ماں کے رحم میں حفاظت، رزق کی فراہمی اور جسمانی اعضا کی تکمیل، یہ سب کچھ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے دنیا میں آنے سے پہلے ہی اس کے جینے کے اسباب مہیا کیے۔ پھر ماں کی محبت، باپ کا سایہ، خاندان کی شفقت، یہ سب رحمتِ الٰہی کے مظاہر ہیں جو انسان کو ابتدائی زندگی میں سنبھالتے ہیں۔

اللہ تعالی کی رحمت ہمیں فطرت کے نظام میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ سورج کی روشنی، چاند کی ٹھنڈک، ہواؤں کا بہاؤ، پانی کی روانی، زمین کی زرخیزی، یہ سب کچھ بغیر کسی فیس یا محنت کے انسان کو میسر ہے۔ ہر درخت کا سایہ، ہر پھول کی خوشبو، اور ہر پرندے کی چہچہاہٹ انسان کے دل کو سکون دیتی ہے اور اللہ تعالی کی بے پایاں رحمت کی یاد دلاتی ہے۔

جب انسان کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اکثر وہ اپنی عقل اور تدبیر کے سہارے اسے حل کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن جب تمام دروازے بند ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالی سے دعا کی جاتی ہے، تو وہ دیکھتا ہے کہ کیسے کوئی نہ کوئی راستہ کھلتا ہے۔ یہ اللہ تعالی کی وہی رحمت ہے جو قرآن مجید میں (میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے) کے ذریعے بیان ہوئی ہے۔

دنیا میں جب بھی کوئی انسان نیکی کرتا ہے، کسی کی مدد کرتا ہے، معاف کرتا ہے، عدل سے کام لیتا ہے، یا کسی کو خوشی دیتا ہے، تو وہ دراصل اللہ تعالی کی صفتِ رحمت کا عکس بن جاتا ہے۔ انسان کے دل میں پیدا ہونے والی نرمی، مہربانی، اور ہمدردی بھی اللہ تعالی کی رحمت ہی کا عکس ہے۔

اگرچہ دنیا میں آزمائشیں بھی ہیں، لیکن ان کے پیچھے بھی اللہ تعالی کی حکمت اور رحمت کارفرما ہے۔ کبھی اللہ تعالی انسان کو مصیبت میں ڈال کر اس کی روحانی بلندی کا سامان کرتا ہے، کبھی کسی نقصان کے ذریعے اسے کسی بڑے نقصان سے بچاتا ہے، اور کبھی بیماری کے ذریعے اس کے گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔ یہ سب کچھ اسی رحمت کا حصہ ہے جو بظاہر سختی کی شکل میں آتی ہے مگر اس کا انجام خیر ہی ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی رحمت ایک ہمہ گیر، لامحدود اور نہایت پراثر حقیقت ہے جو نہ صرف اس کائنات کی ہر شئ میں نمایاں ہے بلکہ انسان کی زندگی کے ہر پہلو میں جاری و ساری ہے۔ یہ رحمت ہر مخلوق کے لیے ہے، مومن و گناہگار، انسان و حیوان سب اس سے فیض یافتہ ہیں۔ قرآنِ مجید اور سیرتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت کا دائرہ صرف آخرت کی بخشش تک محدود نہیں بلکہ دنیاوی زندگی کی ہر نعمت، ہر سہولت، اور ہر نرمی اسی کا مظہر ہے۔ نبی کریم ﷺ کو "رحمة للعالمین” بنا کر بھیجنا اس رحمت کی عظمت کا واضح ثبوت ہے۔

یہ حقیقت ہمیں ایمان، کردار، عبادات اور معاملات میں اعتدال، احسان اور حسنِ اخلاق کی طرف بلاتی ہے۔ بندہ جب اللہ تعالی کی رحمت کو پہچانتا ہے تو وہ ناامیدی اور خوف سے نکل کر امید اور محبت سے لبریز زندگی اختیار کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالی سے گناہوں کی معافی مانگتا ہے، دوسروں کے ساتھ شفقت سے پیش آتا ہے، اور خود بھی دنیا میں رحمت کا ذریعہ بننے کی کوشش کرتا ہے۔ پس، ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت پر ایمان رکھتے ہوئے ہمیشہ اسی سے رجوع کریں، اس سے امید وابستہ رکھیں، اور نبی کریم ﷺ کی سیرت کو اپنا کر اپنی زندگی کو اس رحمت کا عملی مظہر بنائیں۔ کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں اللہ تعالی کی دائمی رضا اور ابدی کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

راہِ ہدایت

وقفی قبرستان میں مزار کی تعمیر: شریعت کی روشنی میں

از: مفتی منظر محسن پورنوی بسم الله الرحمن الرحيم … حامدا و مصليا ومسلمااللهم هداية الحق والصواب حضرت مولانا یونس
تحقیق نامہ

خبروں کی تحقیق اور تصدیق

دلدار حسین جدید دور میں مشینی زندگی اور سوشل میڈیائی طرز عمل سے جہاں آسانیاں مسیر ہیں وہیں منفی اثرات