اعجاز خان کے ویب شو ہاؤس اریسٹ پر فحاشی کا الزام، متعدد سطحوں پر کارروائی

اعجاز خان کے ویب شو ’ہاؤس اریسٹ‘ پر فحش مواد کے الزام میں مقدمہ درج ہوا، خواتین کمیشن سمیت سیاسی و سماجی حلقوں نے سخت نوٹس لیا اور 9 مئی کو طلبی کر لی گئی۔
اداکار اعجاز خان حالیہ دنوں میں اپنے او ٹی ٹی شو ہاؤس اریسٹ کی وجہ سے سخت تنقید اور قانونی کارروائیوں کی زد میں آ گئے ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ ان کے شو میں فحش مناظر دکھائے گئے، جس کے بعد سوشل میڈیا اور سیاسی حلقوں میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ممبئی کی امبولی پولیس نے اعجاز خان، پروڈیوسر راجکمار پانڈے اور متعلقہ او ٹی ٹی پلیٹ فارم “اولو ایپ” کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی ہے۔ یہ کارروائی گوتم راوریا نامی ایک کارکن کی شکایت پر کی گئی، جن کا مؤقف ہے کہ یہ شو عوامی اخلاقیات کے منافی مواد پر مبنی ہے۔
مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والی بی جے پی کی رکن اسمبلی چترا کشور واگھ نے بھی اس شو کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے پروگرام سماج میں مجرمانہ سوچ کو فروغ دیتے ہیں اور ریاستی حکومت ایسے مواد کو برداشت نہیں کرے گی۔اس معاملے نے پارلیمانی سطح پر بھی توجہ حاصل کی ہے۔ مواصلات اور آئی ٹی کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ نشی کانت دوبے نے بھی شو پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کارروائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔
خواتین کے قومی کمیشن (NCW) نے ہاؤس اریسٹ کے ایک منظر کا از خود نوٹس لیا ہے، جس میں اعجاز خان شو کے شرکاء پر دباؤ ڈالتے نظر آتے ہیں کہ وہ نازیبا مناظر میں حصہ لیں۔ کمیشن نے اس کلپ کو خواتین کی رضامندی اور وقار کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ کمیشن نے اعجاز خان اور اولو ایپ کے سی ای او کو 9 مئی کو طلب کر لیا ہے۔اسی دوران شیوسینا کی راجیہ سبھا رکن پرینکا چترویدی نے بھی اس مسئلے کو پارلیمنٹ کی کمیٹی میں اٹھایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ کئی ایپس سرکاری نگرانی سے بچ نکلتی ہیں اور فحش مواد پھیلا رہی ہیں۔
سماج وادی پارٹی کے رہنما ابو اعظمی نے اعجاز خان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ مذہبی شناخت کے باوجود اعجاز اس طرح کے شو میں ملوث ہیں، جو قابل مذمت ہے۔اعجاز خان کا ماضی بھی تنازعات سے خالی نہیں۔ وہ ماضی میں مختلف قانونی معاملات میں گرفتار ہو چکے ہیں، جن میں منشیات اور نفرت انگیز تقاریر کے الزامات شامل رہے ہیں۔
ہاؤس اریسٹ 11 اپریل 2025 کو اولو ایپ پر نشر ہونا شروع ہوا تھا، جسے بعض افراد بگ باس یا لاک اپ جیسے ریئلٹی شوز کا غیر سنسر شدہ ورژن قرار دے رہے ہیں۔ شو میں 12 شرکاء (نو خواتین اور تین مرد) ایک گھر میں بند ہیں اور ان سے مختلف چیلنجز کروائے جاتے ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں جب او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر نشر ہونے والے مواد پر اعتراضات سامنے آئے ہوں۔ اس سے پہلے یوٹیوبر سمے رینا کے شو انڈیاز گاٹ لیٹنٹ اور ایلوش یادو کی ریو پارٹی میں شامل سانپ زہر کیس جیسے تنازعات بھی خبروں کی زینت بن چکے ہیں۔
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بڑھتے ہوئے فحش مواد کے رجحان نے حکومتی اداروں کو بھی متحرک کر دیا ہے، اور اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ اعجاز خان اور دیگر ذمہ داران کے خلاف آئندہ کیا اقدامات کیے جاتے ہیں۔