نسل کشی کا اعتراف

ودود ساجد
اسرائیل کی ملٹری انٹلی جینس کی ایک ’لیک شدہ‘ رپورٹ نے دنیا بھر کے اس الزام کی تصدیق کردی ہے جسے خود اسرائیل جھٹلاتا رہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے غزہ میں جو قتل عام مچایا ہے اس میں 83 فیصد ’ہلاک شدگان‘ غزہ کے عام شہری ہیں۔ یہ رپورٹ گزشتہ 21 اگست کو منظر عام پر آئی ہے۔
انگریزی روزنامہ ’دی گارجین‘ کی قیادت میں اسرائیل کے تین میڈیا اداروں کی مشترکہ ٹیم نے ملٹری انٹلی جنس کی رپورٹ میں شامل اعداد و شمار کا باریکی کے ساتھ مشاہدہ اور مطالعہ کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے گزشتہ 19 مہینوں میں حماس اور اسلامک جہاد کے آٹھ ہزار 900 جنگجوئوں کو ہلاک کیا ہے۔ تینوں میڈیا اداروں کی مشترکہ ٹیم نے ان اعداد و شمار کو غزہ کی وزارت صحت کے جاری کردہ اعداد و شمار سے ملاکر دیکھا تو اس نتیجہ پر پہنچی کہ ہلاک شدہ جنگجوئوں کی تعداد غزہ میں مجموعی ہلاک شدگان کی تعداد کا محض 17 فیصد ہے۔ یعنی 53 ہزار سے زیادہ ہلاک شدگان غزہ کے عام شہری ہیں۔ اسرائیل کی اس رپورٹ میں ہر ہلاک شدہ جنگجو کا نام اور دیگر تفصیلات درج ہیں۔ میڈیا اداروں کی مذکورہ تفتیشی ٹیم کے مطابق اسرائیلی حکام نے ان تفصیلات کی تردید نہیں کی ہے۔
ادھر اب جاکر اقوام متحدہ نے غزہ کو قحط زدہ علاقہ قرار دیاہے۔ عرب ملکوں میں اسرائیل کو سب سے زیادہ پسند کرنے والے ملک ’متحدہ عرب امارات‘ نے بھی اب اسرائیل کے خلاف زبان کھولی ہے۔ امریکہ کے سابق صدر بائیڈن کو بھی اب ہوش آیا ہے۔ انہوں نے بیان دیا ہے کہ نتن یاہو نے تمام امن معاہدوں کو جان بوجھ کر سبوتاژ کیا‘ اور اگر میں اس وقت نتن یاہو کے خلاف کچھ کہتا تو اس سے حماس کو ہی مضبوطی ملتی‘ اس لئے خاموش رہا۔ موجودہ صدر ٹرمپ کے تعلق سے کوئی بات نہ کی جائے تو بہتر ہے۔ اس لئے کہ وہ دنیا بھر میں کسی بھی دوست کے دوست نہیں ہیں تاہم اسرائیل اور نتن یاہو کے ہاتھ پر انہوں نے غیر مشروط ’بیعت‘ کر رکھی ہے۔ اس لئے وہ جو کچھ بھی کریں گے‘ خواہ خفیہ طور پر کریں یا علانیہ‘ اسرائیل کے ہی حق میں کریں گے۔ اسی لئے انہوں نے پچھلے دنوں اربوں ڈالر تو لئے تین عرب ملکوں سے لیکن اربوں ڈالر کے خطرناک ہتھیار سپلائی کئے اسرائیل کو۔ لہذا اہل عرب بھی غزہ کےان 83 فیصد شہریوں کے قتل عام کے الزام سے بچ نہیں سکتے۔
غزہ کے قتل عام پر ریسرچ کرنے والوں نے کہا ہے کہ جدید دنیا کی جنگوں میں جتنی تباہی غزہ میں ہوئی ہے اس کا کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ بس روانڈا قتل عام ‘ سربرینکا قتل عام اور روس کے ذریعہ ماریوپول پر قبضہ کرنے کے دوران ہونے والا قتل عام ہی ایسا ہے جس میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو ہلاک کیا گیا۔
حقوق انسانی کے گروپوں اور نسل کشی کے پیمانوں پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ ایک طرف جہاں اس نے محض دوسال سے بھی کم مدت میں 60 ہزار سے زیادہ لوگوں کا قتل عام کیا ہے وہیں اب وہ بوڑھوں‘ بچوں ‘عورتوں اور مریضوں کو بھی کھانے اور دوا کی عدم فراہمی کے ذریعہ مار رہا ہے۔ مختلف اداروں نے تجزیہ کیا ہے کہ اسرائیلی وزراء اور شدت پسند سیاسی رہ نما جس طرح کی زبان اہل غزہ کیلئے استعمال کر رہے ہیں وہ بھی ان کے نسل کشی کے عزائم کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اسرائیل کے چینل 12 پر اسرائیل کے سابق انٹلی جنس ہیڈ ’اہارون ہلیوا‘ کی ایک آڈیو ریکارڈنگ ’لیک‘ ہوئی ہے۔ اس میں اسے یہ کہتے ہوئے سناگیا ہے کہ’ یہ حقیقت ہے کہ غزہ میں پچاس ہزار سے زیادہ شہری مارے گئے ہیں اور یہ ہماری اگلی نسلوں کیلئے ضروری تھا‘۔ اہارون نے یہ بھی کہا ہے کہ ’سات اکتوبر 2023 کو مارے جانے والے ہر اسرائیلی کے بدلے پچاس فلسطینیوں کومارا جانا ہے‘۔
واضح رہے کہ سات اکتوبر 2023 کو حماس کے درجنوں بندوق برداروں نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کرکے 1500 شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا تھا اور 250 کو یرغمال بناکر لے گئے تھے۔ اس اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو ابھی 15 ہزار فلسطینیوں کا قتل عام مزید ہونا باقی ہے۔ اب تک ایک لاکھ 57 ہزار لوگ زخمی ہوچکے ہیں۔ اہارون نے مزید کہا کہ فلسطینیوں کو وقتا فوقتاً ’نکبہ‘ کی ضرورت ہے تاکہ وہ درد کو محسوس کرتے رہیں۔ نکبہ سے مراد 1948 میں فلسطینیوں کی کی جانے والی نسل کشی ہے جو اسرائیل کی تخلیق کیلئے کی گئی تھی۔
اقوام متحدہ کے ذریعہ غزہ کو مکمل قحط زدہ علاقہ قرار دینے کا غزہ کی صورتحال پر کیا اثر پڑے گا نہیں معلوم لیکن کم سے کم اتنا تو ہوگا ہی کہ غزہ میں جاری قحط‘ بھکمری اور اس سے ہونے والی اموات کے اعداد و شمار کو اسرائیل جھٹلا نہیں سکے گا اور غزہ میں کام کرنے والی تنظیموں کے دعوے کو تقویت ملے گی۔ حماس نے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہرچند کہ اس اعلان میں تاخیر ہوئی ہے تاہم یہ بہت اہم ہے۔
اقوام متحدہ کو لوگ لعن طعن کرتے ہیں لیکن اقوام متحدہ کسی الگ مخصوص اور طاقتور ادارے کا نام نہیں ہے۔ اس میں 198 ممالک شامل ضرور ہیں لیکن اس ادارے کے ہر فیصلہ پر صرف پانچ مستقل رکن ممالک کا تسلط ہے۔ انہیں’فائیو پی‘ کہا جاتا ہے۔ ان میں امریکہ ‘برطانیہ‘ فرانس‘ چین اور روس شامل ہیں۔ کسی بھی قرارداد کو اگر ان میں سے کوئی بھی ایک ملک مسترد کردے تو وہ نامنظور ہوجاتی ہے۔ اسے ’ویٹو‘ کرنا کہتے ہیں۔ لہذا اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی ایک بھی قرار داد آج تک اقوام متحدہ میں منظور نہیں ہوسکی ہے۔ تقریباً ہر قرار داد کو امریکہ نے ہی ’ویٹو‘کیاہے۔
اقوام متحدہ کو لعن طعن کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس ادارے کے سیکریٹری جنرل ’انٹونیو گوٹریس‘ نے تو پہلے ہی دن سے اہل غزہ کے حق میں آواز بلند کرنے کا حق ادا کردیا ہے۔ لیکن ان کے پاس کوئی قوت نافذہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ عالمی عدالت انصاف کے ذریعہ نتن یاہو اور اس کے ایک وزیر کے خلاف جاری ہونے والے گرفتاری وارنٹ پر عمل کرانے کیلئے بھی ان کے پاس کوئی قوت نہیں ہے۔
یہاں ہندوستان میں لوگ ایران کو بھی لعن طعن کرتے ہیں کہ آخر وہ اسرائیل پر حملہ کیوں نہیں کردیتا۔ اور یہ کہ جب ان دونوں کے درمیان 12روزہ جنگ ہوئی تھی تو ایران نے حملے بندکرنے سے پہلےکیوں غزہ میں جنگ بندی کی شرط نہیں رکھی؟ اس سوال کا خود ایران ہی جواب دے تو بہتر ہے۔ تاہم بہت سے عرب مبصرین سوال کر رہے ہیں کہ خود عربوں کو کیا ہوگیا ہے؟ وہ کیوں غزہ کی مدد کو نہیں آتے اور کیوں اسرائیل کے ہاتھ نہیں پکڑتے؟ فلسطین کے امور کے ممتاز عرب ماہر ’مروان بشارہ‘ نے مطالبہ کیا ہے کہ عربوں کو واشنگٹن جاکر ٹرمپ پر دبائو ڈالنا چاہئے کہ وہ نتن یاہو کے جنگی جنون اور نسل کشی کے پاگل پن پر روک لگائیں۔ الجزیرہ کی ممتاز خاتون صحافی ’خدیجہ بن قنہ‘ نے کہا ہے کہ غزہ کے تعلق سے اہل مغرب تو بیدار ہیں مگر اہل عرب سو رہے ہیں۔ یہ بات انہوں نے ہالینڈ کے وزیر خارجہ کے استعفے کے بعد کہی ہے جو انہوں نے غزہ میں اسرائیل کے جرائم کی پاداش میں اس پر پابندیاں عاید کرنے سے انکار کرنے پر دے دیا۔
واقعہ یہی ہے کہ عرب ممالک جو دبائو ڈال کر علاحدہ فلسطینی ریاست کا راستہ صاف کرسکتے تھے وہ نہیں کرسکے۔ انہوں نے ٹرمپ کو اپنی فراخ دلی سے یہ یقین دلادیا کہ انہیں اسرائیل کے ہاتھوں غزہ کی تباہی پر کوئی فکر نہیں ہے۔ امریکہ ہی تو اسرائیل کی ضرورت کے 69 فیصد تباہ کن ہتھیار دے رہا ہے۔ ساری دنیا میں یہاں تک کہ خود امریکہ اور اسرائیل میں بھی نتن یاہو کے جنگی جنون کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے لیکن امریکہ اسرائیل کو برابر ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ ایسے میں عربوں کا جو رویہ ہونا چاہئے تھا وہ نہیں رہا۔
حل اسی وقت نکلے گا جب خود عرب کوئی موثر کردار ادا کریں گے۔تمام تر سیاسی اور جغرافیائی صورتحال بھی اسی مطالبہ اور ضرورت کی تائید کرتی ہے۔ لیکن شاید عرب ممالک حماس کے مکمل خاتمہ کا انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن تباہی و بربادی توعام شہریوں کی ہورہی ہے؟
ایران سے مطالبہ کرنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ حماس کو اسی نے اس حد تک کمک بہم پہنچائی کہ وہ سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کرسکی لہذا اب ایران کو ہی اسرائیل سے لوہا لینا چاہئے۔ لیکن ایران کا کہنا ہے کہ حماس نے سات اکتوبر 2023 کو حملہ کرنے کیلئے ایران سے کوئی مشورہ نہیں کیا۔ایران پر لبنان کی حزب اللہ کو مسلح کرنے کا بھی الزام ہے۔ اسرائیل نے حزب اللہ کی طاقت کو تقریباً ختم کردیا۔ بشارالاسد کے اقتدار کے خاتمہ سے بھی ایران کو زک پہنچی ہے۔ لیکن ایران کھل کر اسرائیل کی تباہی کے عہد کو دوہراتا رہا ہے۔
حال ہی میں ٹائمز آف اسرائیل نے انٹلی جنس کے ذرائع کا حوالہ دے کر ایک تفصیلی رپورٹ بھی شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح اسرائیل نے ایران کے ہاتھوں خود کو تباہ ہونے سے بچالیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر اسرائیل ایران پر حملہ نہ کرتا تو چند ہی ہفتوں میں ایران نیوکلیائی بم بنالیتا۔ سوال یہ ہے کہ خود عربوں نے تمام وسائل ہونے کے باوجود کیوں خود کو عسکری میدان میں مضبوط نہیں کیا۔ اگر وہ مضبوط ہوتے تو اسرائیل کی شاید اتنی ہمت و جرات نہ ہوتی۔آج نتن یاہو عظیم تر اسرائیل کے خواب دیکھ رہا ہے۔اس کےنقشہ میں اردن‘ مصر‘ شام‘ لبنان‘ عراق اور سعودی عرب کے بھی علاقے شامل ہیں۔ کیا اس کا مقابلہ کرنے کیلے عربوں کو مضبوط نہیں ہونا چاہئے؟
بہرحال اتنی تباہی کے باوجود نتن یاہو اپنے بیان کردہ مقصد میں اب بھی ناکام ہے۔ 19 مہینوں کی جنگ میں وہ محض نو ہزار بندوق برداروں کو ہی مار سکا ہے۔ امریکی انٹلی جنس کے مطابق حماس کے پاس سات اکتوبر 2023 سے پہلے 30 ہزار جنگجو تھے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد اس نے مزید 15ہزار جنگجو بھرتی کئے تھے۔ اس طرح اب بھی اس کے پاس 35 ہزار جنگجو ہوسکتے ہیں۔
حماس کو بھی جائزہ لینا چاہئے کہ اس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے جو 1500 شہری قتل کئے تھے اسرائیل نے اس کے بدلے میں اب تک 53 ہزار شہریوں کو ہلاک کردیا ہے۔ حماس نے جو 250 اسرائیلی یرغمال بنائے تھے ان کے بدلے میں اسرائیل اب تک ہزاروں فلسطینیوں کو گرفتار کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ رہائشی اور کاروباری عمارتوں کی جو تباہی ہوئی ہے وہ الگ۔ حماس کی سیاسی اور عسکری قیادت کہہ سکتی ہے کہ نتن یاہو کو انہوں نے تھکا رکھا ہے لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ غزہ میں جاری عام شہریوں کے قتل عام کو کیسے روکا جاسکے گا؟ حماس کو اب کچھ تو سوچنا پڑے گا۔
شکریہ روزنامہ انقلاب