سیاسی بصیرت

مسائل سے فرار کا نیا ہتھکنڈا

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

سیاست، معاشرتی زندگی کا ایک نہایت اہم شعبہ ہے جو عوام کی رہنمائی، اُن کے مسائل کا حل اور قومی ترقی کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک میں سیاست دانوں کے کردار کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے کیوں کہ وہی عوام کی نمائندگی کرتے ہیں اور اُن کے مسائل ایوانوں میں اٹھاتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ آج کی سیاست میں اصولی و اخلاقی اقدار کے بجائے بدکلامی، الزام تراشی اور ذاتی کردار کشی زیادہ نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ ہندوستانی سیاست، جو کبھی اعلیٰ اقدار اور عظیم شخصیات کے کردار سے مزین تھی، اب انتہائی پست وخسیس زبان کا شکار ہوچکی ہے جو عوامی شعور کو گمراہ کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں تقسیم اور نفرت کو بھی فروغ دیتی ہے۔
اگر ہم آزادی کی جد و جہد کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو سیاست میں زبان و بیان کا معیار نہایت بلند تھا۔ گاندھی جی، مولانا ابوالکلام آزاد، پنڈت نہرو اور سردار پٹیل جیسے رہنماؤں کی تقریریں نرم خوئی، حکیمانہ اور مثبت و مدلل ہوا کرتی تھیں۔ تمام تر اختلافات اپنی جگہ مگر تہذیب و شائستگی کو ہمیشہ مقدم رکھا جاتا۔ آزادی کے بعد بھی کئی دہائیوں تک سیاست دان عوامی مسائل پر توجہ دیتے رہے اور باہمی اختلاف کو ذاتی دشمنی یا بد زبانی میں کبھی بدلنے نہیں دیے۔ مگر بدلتے وقت کے ساتھ جب سیاست میں مفاد پرستی آئی، طاقت و اقتدار اور نفع و نقصان کا غلبہ ہوا، تو زبان و بیان کی پاکیزگی بھی متأثر ہونے لگی۔ حالیہ برسوں میں بد زبانی کی صورت حال اور اُس کے سیاسی منظر نامے سے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے کہ آج بدکلامی اور بدزبانی تقریباً سیاست کی ہر چھوٹی بڑی سطح پر موجود ہے۔ کیا انتخابی اجلاس اور کیا عوامی اجتماعات ہرجگہ گالی گلوچ، طنز و تمسخر اور ذاتی حملے بخوبی دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ حد تک تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور اِسمبلیاں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ جس میڈیا پلیٹ فارم پر سخت کلامی اور بدزبانی کے خلاف بالخصوص مہم چلنی چاہیے آج وہ بھی سخت کلامی اور بدزبانی کے فروغ میں مرچ مسالہ مہیا کررہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ عہد کے سیاست دانوں کے اندر اِس قدر بےحیائی اور بدکلامی و بدزبانی کیوں پائی جاتی ہے؟ اُس کے اسباب وعلل کیا ہیں؟ تو سب سے پہلی وجہ جو ہمارے ذہن میں اُبھرتی ہے وہ سیاست دانوں کا ناخونداہ اور غیرتعلیم یافتہ ہونا ہے۔ آج بیشتر سیاسی لیڈران تعلیم و تربیت سے ناقابل یقین کی حد تک دور ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آج کے سیاست دان پہلے کی طرح ملک و قوم کی ترقی کے لیے میدانِ سیاست میں قدم نہیں رکھتے۔ بلکہ محض دولت کمانے کے لیے سیاست میں آتے ہیں۔ اُن کی نظر صرف اور صرف ذخیرہ اندوزی پر ہوتی ہے۔ آج اقتدار و سیاست عوامی خدمات اور سوشل ترقیات کی جگہ ذاتی مفاد کے حصول کا ذریعہ بن گئی ہے۔ ہوسِ اقتدار کی اِس جنگ میں اپوزیشن کو ذلیل و خوار کرنا حکمراں طبقہ نے آسان ہتھیار سمجھ لیا ہے۔ عوام کی بڑی تعداد بھی جذباتی نعرے بازی اور تیز و تند زبان سے متأثر ہونے لگی ہے۔ چناں چہ حکمراں طبقہ بھی اُن کی اِس کمزوری کا مکمل فائدہ اُٹھاتا ہے۔ اُدھر میڈیا بھی اپنی ٹی آر پی کے پیش نظر سنجیدہ بحث و مباحثےکی جگہ تیز و تند اور نفرتی بیانات کو ہوا دیتا ہے، جس سے بدزبانی کو مزید شہرت ملتی ہے۔ بلکہ آج تو باضابطہ کئی ایسی تنظیمیں ہیں جو سوشل میڈیا پر اپوزیشن کے ساتھ بدزبانی کرنے کے لیے آٹھوں پہر تیار و مستعد رہتی ہیں۔
بلکہ سچ تو یہ ہے کہ بدزبانوں کی فہرست میں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ جیسے ذمہ دار افراد بھی شامل نظر آتے ہیں جو ہندوستان جیسے جمہوری ملک کے لیے بہت بڑا المیہ ہے۔ ذرائع کے مطابق: وزیراعظم، سونیاگاندھی جیسی معزز خاتون کو ’’ودھوا‘‘ کہتے ہوئے ذرہ برابر نہیں ہچکچاتے۔ حد تو یہ ہے کہ اُنھیں ’’جرسی گائے‘‘ سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ بدزبانی کی ساری حدیں تو اُس وقت پار کردی جاتی ہیں جب وزیر اعظم، بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے ڈی این اے پر سوال کھڑا کرتے ہیں، ششی تھرور کی اہلیہ کو ’’پچاس کروڑ کی گرل فرینڈ‘‘ کہہ کر اُن کی ہتک عزت کرتے ہیں۔ اِس سے کون واقف نہیں ہے کہ حکمراں طبقہ نے ایک زمانے تک راہل گاندھی کو ’’پپو‘‘ کے نام سے مذاق اڑایا اور اُن کی توہین کرتا رہا۔ علاوہ ازیں دیگر مرکزی وزرا بھی اِس بدزبانی میں پیچھے نہیں رہے۔ رومیش بدھوری نے بھرے پارلیمنٹ میں ایم پی کنور دانش علی کو’’بھڑوا‘‘،’’کٹوا‘‘ اور مذہبی دہشت گرد کہا اور کمال بدزبانی کا مظاہرہ کیا۔بعض وزرانے میڈیا کے سامنے اعلانیہ طور پر ’’دیش کے غداروں کو گولی مارو ۔۔۔ کو‘‘ کہہ کر ایک خاص طبقے کونشانہ بنایا۔ حیرت کی بات تو یہ رہی ہے کہ اِن تمام غیرجمہوری اور غیردستوری حرکتوں کے باوجود نہ تو وزیر اعظم کو اِحساس ندامت ہوا اور نہ ہی وزیر داخلہ کو۔ اس کے برعکس جشن منائے گئے اور اِن بدزبانیوں کو سیاسی مفاد کے طور پر اِستعمال میں لائے گئے۔
لیکن آج جب کہ ایک غیر معروف لڑکے نے اپوزیشن کے اسٹیج سے وزیر اعظم کی ماں کی شان میں بدزدبانی تو سارا آسمان سر اُٹھا لیا گیا ہے۔ حکمراں طبقہ کو آج یہ احساس ہو رہاہے کہ وزیر اعظم کی ماں کو گالی دینا باشندگانِ ہند کی ماں کو گالی دینے جیسا ہے۔ کاش کہ حکمران طبقہ بدکلامی اور بدزبانی کو ہوا دیتے وقت ہی یہ غور کرلیا ہو تاکہ ایک نہ ایک دن اُس کی زد میںوہ بھی آسکتا ہے، تو آج یہ نوبت نہیں آتی۔ حالاں کہ کسی بھی قیمت پر بدزبانی کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔لیکن یہ بھی خیال رہے کہ یہ صرف ایک وزیر اعظم کی ماں کی بات نہیں، بلکہ کسی بھی ہندوستانی کی ماں کی شان میں بدزبانی برداشت نہیں کی جاسکتی۔ دوسری طرف ملزم کو اُس کے کیفر کردار تک پہنچانے کی جگہ اِس مسئلے کی آڑ میں اپوزیشن کو گھیرنا بھی مناسب نہیں۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ماں کی محبت کی جگہ کرسی کی محبت غالب آ جائے اور اصل چوری پکڑلی جائے۔ ویسے بھی عوام و خواص کی اکثریت یہ سوال پوچھ رہی ہےکہ دوسروں کی ماں کے لیے بدزبانی کرتے وقت ایسا خیال کیوں نہیں آیا؟ حالاں کہ حکمراں طبقہ نے اِس معاملے کو جذباتی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن بہار بندںکی ناکامیابی نے ساری قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ لطف بات کی تو یہ ہےکہ جو لوگ ’’میں بھی ماں ہوں‘‘ کا بینر لیے بہار بند کرا رہے تھے وہ خود ہی احتجاج کے دوران عوام الناس کی ماؤں کی ہتک عزت کرتے نظر آئے۔
یہ تمام باتیں نہ صرف عوامی و ملکی سطح پرںاخلاقیات میں گراوٹ کے اسباب ہیں، بلکہ اِن کی وجہ سے کئی سنگین اثرات بھی مرتب ہوں گے، مثلاً جمہوری نظام کمزور ہوگا۔ جمہوری نظام کا اصل مقصد کہ ہرںمسئلہ مہذب گفتگو، مضبوط دلائل اور آپسی مکالمے سے حل ہونا چاہیے پسِ پشت چلا جائےگا۔ سماج و معاشرہ تقسیم کا شکار ہوجائےگا۔ رائے دہندگان اپنے اپنے پسندیدہ لیڈروں کی تقلید میں ایک دوسروں کو گالی دیں گے اور بدکلامی و بدزبانی کریں گے اور یہ تشدد کو بڑھاوا دےگا ۔ایک طبقہ دوسرے طبقے سے الجھ پڑےگا۔ تعلیم و تعلّم، صحت وسلامتی، غربت و مفلسی اور روزگار جیسے ایشوز کہیں نظر نہیں آئیں گے، اور بدزبانی و بدکلامی کے شائقین سیاست دان یہیچاہتے ہیں کہ اصل ایشوز عوام کے حاشیۂ خیال میں بھی نہ آنے پائے۔ لہٰذا ہمیں اِس پہلو پر بطور خاص توجہ دینا ہوگا اوریہ سمجھنا ہوگا کہ بدزبان لیڈر ہرگز ہمارے مسائل کے حل کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستانی سیاست اپنی عظمتِ رفتہ دو بارہ حاصل کرے تو زبان و بیان کی تہذیب کو لازمی طور پر بہرحال زندہ رکھنا ہوگا۔ سیاست میں اختلافات سے انکار ممکن نہیں، لیکن واضح رہے کہ تمام تر اختلافات کی صورت میں اِظہار کا مہذب طریقہ ہی جمہوریت کو مستحکم کرتا ہے۔ لہٰذا بدکلامی و بدزبانی کی جگہ مدلل گفتگو، کردار کشی کی جگہ تعمیری تنقید، اور نفرت کی جگہ محبتانہ مکالمہ کا فروغ ہی ہندوستانی سیاست کو دُنیا کے سامنے ایک روشن ستارہ کی مانند پیش کرسکتا ہے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

سیاسی بصیرت

ٹی ایم سی رائے گنج لوک سبھا الیکشن کیوں نہیں جیت پاتی؟

تحریر: محمد شہباز عالم مصباحی رائے گنج لوک سبھا حلقہ مغربی بنگال کی ایک اہم نشست ہے جس کی سیاسی
سیاسی بصیرت

مغربی بنگال میں کیا کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے؟

محمد شہباز عالم مصباحی سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال مغربی بنگال، جو ہندوستان کی سیاست میں