کاروبار کی دنیا

تجارت کی عالمی جنگ

عارف بہار

دنیا کی دوبڑی معیشتوں امریکہ اور چین کے درمیان تزویراتی مخاصمت اب پوری طرح تجارتی محاذ تک پھیل گئی ہے ۔امریکہ جب دنیا میں اپنا دبدبہ قائم کرنے کے لیے جنگیں لڑتا رہا تو چین نہایت خاموشی سے اس کے اندر گھس کر اپنی تجارتی سپیس پڑھاتا چلا گیا ۔ہوش اس وقت آیا جب امریکہ جنگوں سے کچھ عرصہ کے لیے فارغ ہوا تو اسے اندازہ ہوا کہ چین اس کی مارکیٹوں پر اپنا غلبہ قائم کرنے کے قریب ہے ۔تب امریکہ نے چین کو اپنی منڈیوں سے باہر دھکیلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دئیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ چین کے حوالے سے ایک واضح ذہن کے ساتھ اقتدار میں آئے اور صاف لگ رہا تھا کہ اس بار ٹرمپ اپنا سار زور چین کوتجارتی محاذ پر پسپا کرنے پر صرف کریں گے ۔چینی قیادت کو اس چیلنج کا بخوبی اندازہ تھا اسی لیے چینی صدر ژی جن پنگ نے حال ہی میں کہا تھا کہ چین پر جنگ مسلط کی گئی تو وہ دردناک انجام تک اسے لڑتا رہے گا۔ٹرمپ نے صدر بنتے ہی اپنی سوچ وفکر کے مطابق فیصلے کرنا شروع کر دیے تو اس کے نتیجے میں معاشی جنگ تیز ہو کر رہ گئی ۔اب امریکہ نے دنیا کے کئی ملکوں پر اضافی تجارتی ٹیرف عائد کرکے معاشی مراکز میں ایک بھونچال برپا کر دیا ہے ۔دنیا تو کم یا زیادہ اس جھٹکے سے متاثر ہورہی ہے مگر یہ جھٹکے امریکہ کی اپنی اسٹاک مارکیٹ کو بھی ہلانے کا باعث بن رہے ہیں ۔اس دوران دونوں ملکوں کے سربراہوں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ژی جن پنگ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہو رہا ہے۔صدر ٹرمپ نے غیر ملکی درآمدات پر اضافی ٹیرف عائد کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اب دوسرے ملکوں کے لیے کوڑے مارنے کی ٹکٹکی نہیں رہے گا۔اس کے لیے انھوں نے انگریزی کی اصطلاح Whipping postاستعمال کی ۔گویا کہ وہ مقام جسے ہر کوئی اپنے مفاد اور مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔چین نے امریکہ کے اس اقدام کو چینی ترقی کو روکنے کے لیے اقتصادی ہتھیار کا نام دیا ہے۔یوں دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان معاشی اور تجارتی کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے ۔وائٹ ہاؤس کے اعلامیے کے مطابق صدر ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرتے ہوئے اسے امریکی معیشت کے لیے فائدہ مند قرار دیا جب کہ دنیا میں اس فیصلے سے تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔اس فیصلے سے متاثر ہونے والے ملکوں میں بھارت پاکستان ترکی چین اور یورپی یونین شامل ہیں۔امریکہ نے پاکستان پر انتیس فیصد یورپی یونین پر بیس فیصد چین پر چونتیس فیصد جاپان پر چوبیس فیصد بھارت پر چھبیس فیصداسرائیل پر سترہ فیصدبرطانیہ پر سترہ فیصد ٹیرف عائد کیا ہے۔ان محصولات سے عالمی تجارتی تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔اس فیصلے سے عالمی معاشی منڈیوں میں ایک بھونچال محسوس کیا جا رہا ہے۔ٹیرف میں اضافے کے اعلان کے ساتھ ہی خود امریکہ کی سٹاک مارکیٹ میں پندرہ سو پوائنٹ کی گراوٹ دیکھی گئی جو کورونا کے بعد سب سے بڑی گراوٹ بتائی جا رہی ہے۔اس معاشی گراوٹ سے عالمی سرمایہ کاروں میں ایک بے چینی محسوس کی جارہی ہے۔کینیڈا اٹلی آسٹریلیا اور آئر لینڈ نے امریکہ کے اس فیصلے پر کھلی تنقید کی ہے۔کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کار نے کہا ہے کہ وہ اس کے خلاف جوابی اقدام کریں گے۔یورپی یونین نے بھی ان محصولات کو غیر ضروری اور غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔کانگریس کے سربراہ راہل گاندھی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکہ کے یہ اقدامات بھارتی معیشت کو تباہ کر دیں گے۔اس سے آٹو انڈسٹری ،فارماسیوٹیکل اور زراعت کے شعبے بری طرح متاثر ہوں گے۔اس کے برعکس بھارت کے کئی معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی محصولات بھارتی معیشت کو زیادہ نقصان نہیں پہنچائیں گے کیوں کہ امریکہ کی برآمدات میں بھارت کا حصہ اٹھارہ فیصد ہے جب کہ بھارت کی درآمدات میں امریکہ کا حصہ صرف 6.22فیصد ہے۔بھارت اورامریکہ کی تجارت کا حجم بھی صرف 10.73 فیصد ہے ۔اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹا لیناجارجیواکو بھی کہنا پڑا کہ امریکہ کے حالیہ اقدامات عالمی معیشت کے لئے شدید خطرہ ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ معیشت کی سست شرح ِ نمو کے دوران یہ ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ ہو سکتا ہے ۔ انھوں نے امریکہ کو یہ فیصلہ واپس لینے اور تجارتی شراکت داروں سے بہتر تعلقات قائم کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔ آئی ایم ایف کی سربراہ کا بیان ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ یہ دنیا کی بیشتر معیشتوں کو کنٹرول کرنے اور ان کے نین نقش تراشنے کا کام دیتا ہے ۔چین اور امریکہ کی معاشی لڑائی نے پہلے بھی دنیا کو کورونا وبا ء کا تحفہ دیا جس نے دنیا کی معیشتوں کو ایک تاریخی بحران اور چیلنج سے دوچار کیا اور اس دور کے زخم برسوں بعد بھی مندمل نہیں ہو سکے ۔اب یہ مسابقت اور مخاصمت ایک نئے مرحلے میں دخل ہو کر عالمی معیشت کو ایک نئے بحران کی دہلیز پر کھڑا کر چکی ہے۔جس کے مضر اور تباہ کن اثرات ترقی پذیر ملکوں کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ملکوں کی معیشتوں پر مرتب ہونا بھی یقینی ہے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کاروبار کی دنیا

تجارت میں اسلام کی رہنمائی

ڈاکٹر محمد واسع ظفر احقر نے سنہ 2019ء میں تجارت کے موضوع پر ایک طویل مضمون رقم کیا تھا جس
کاروبار کی دنیا

عید قرباں کے چند اہم معاشی پہلو

شمیم طارق ہمارے ملک میں تقریباً ۳۸؍ فیصد ایسے لوگ ہیں جو گوشت خور نہیں ہیں ۔ اس کا مطلب