کٹیہار کے نیلگوں دامن میں چھپافطرت کا حسین تحفہ: گوگابیل جھیل

وسیم احمد علیمی
سوکھ گئی جب آنکھوں میں پیار کی نیلی جھیل قتیلؔ
تیرے درد کا زرد سمندر کاہے شور مچائے گا
روئے زمین پر انسانی بقا اور صحت مند معاشرہ کے وجود کے لیے قدرتی وسائل و ذخائر کی موجودگی اور تحفظ بے حد ضروری ہے۔کسی بھی خطۂ زمین پر جھیل کا موجود ہونا اس بات کی گواہی ہے کہ وہ علاقہ فطرت کا پسندیدہ ہے اور قدرت نے بے حد محبت کے ساتھ اس کو سنوار رکھا ہے بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا نظارہ کرنے کے لیے فطرت پسند نظر اور نظریہ بھی انسان کے پاس ہو۔
ابتدائی طور پر جھیلیں دو طرح کی ہوتی ہیں : (۱) قدرتی اور(۲) مصنوعی ۔پھر ان میں بھی شفاف پانی اور نمکین پانی کے حساب سے درجہ بندی کی جاتی ہے ۔جموں کشمیر میں واقع وولر جھیل ہندوستان میں شفاف پانیوں والی سب سے بڑی جھیل ہے ۔ جبکہ مجموعی طور پر سب سے بڑی جھیل ہونے کا درجہ کیرالہ کی وِمبانند جھیل کو حاصل ہے۔نمکین پانیوں کی سب سے بڑی جھیل اوڈیشہ میں واقع ہے جس کا نام چلکا جھیل ہے۔ معلوم ہو کہ نمکین پانی والی جھیل سے نمک پیدا کرنے کا کام بھی لیا جاتاہے جس سے سیاحت کے ساتھ تجارت بھی فروغ پاتی ہے۔ان سب کے علاوہ دنیا میں سب سے عجیب و غریب قسم کی جھیل افریقہ میں واقع ہے جس کا پانی حیرت انگیز طور پر گلابی ہے اس لیے پوری دنیا میں یہ گلابی جھیل (پِنک لیک) کے نام سے مشہور ہے۔اس جھیل میں بھی نمک کی بڑی مقدار موجود ہے ۔
میں اپنے اس مضمون میں صرف قدرتی جھیلوں پر ہی گفتگو کروں گا ۔جہاں تک جھیلوں کی اہمیت کا سوال ہے تو جھیل ندیوں کے بہاؤ کو مستقل کرنے میں مدد دیتی ہیں ، زیادہ بارش کے دوران زائد پانی کو اپنے شکم میں ضبط کرکے علاقے کو سیلاب کی زد سے بچاتی ہیں ، خشک سالی اور قحط کے دوران بھی زیر زمین پانی کی قلت نہیں ہونے دیتیں ، آس پاس کے ماحولیات میں توازن کو برقرار رکھتی ہیں، مختلف قسم کے نایاب آبی پرندوں اور جانوروں کو حسن و دلکشی سے اپنی طرف مائل کرتی ہیں اور سب سے اہم یہ کہ بے پناہ رعنائی کے ساتھ قدرت کی نظارگی کا خوبصورت و دلنشیں نقشہ کھینچ کر سیاحت کو فروغ دیتی ہیں ۔
ضلع کٹیہار کے آمدآباد بلاک میں واقع ’گوگابیل جھیل‘ (Gogabil Lake) ایسے ہی قدرت کے انتہائی دلکش تحفوں میں سے ایک تحفہ ہے ۔گوگابیل جھیل کے جغرافیائی زاویوں کی بات کریں تو یہ شہرکٹیہار سے تقریبا ۲۴ کلومیٹر اور میرے گاؤں خوشحالپور سے ۱۶ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے ۔ میں نے بذات خود اس جھیل کی سیاحت کی ہے اور میں گواہی دے سکتاہوں کہ یہ جھیل ایک قدرتی ،سرسبزو شاداب اور ابتدائی طور پر ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک فطری معدنیات کا ایک بیش قیمتی سرمایہ ہے۔
گوگابیل جھیل ریاست بہار کے سب سے بڑے مرطوب زمینوں میں سے ایک ہے۔اور قارئین کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ حکومت بہار کے محکمۂ ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کے ذریعہ اس جھیل کو ریاست کا سب سے پہلا کنزرویشن ریزرو(Conservation Reserve) کا بھی درجہ حاصل ہے۔ وائلڈ لائف تحفظ ایکٹ ۱۹۷۲ کے مطابق یہ جھیل ایشیا کے آبی پرندوں والے اہم مقامات میں سے ایک ہے۔گوگابیل جھیل کا رقبہ ۲۱۷ /ایکڑ کو محیط ہے جن میں سے ۷۴ /ایکڑ حکومت کی زمین ہے اور باقی زمین علاقائی کسانوں سے تعلق رکھتی ہے۔اسی وجہ سے مقامی لوگ اس کی فطری اہمیتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سال بھر اس میں ماہی گیری اور کھیتی کرتے ہیں، جراثیم کش دواؤں سے اس میں آلودگی پیدا کرتے ہیں اور اپنے خطے میں موجود اس قدرتی تحفے کی اہمیت سے غفلت کا مظاہرہ کرتے نہیں تھکتے ۔ مانسون کے دوران مہانندا اور گنگا ندی کا کا پانی اس جھیل میں سیلاب جیسا ماحول پیدا کردیتاہے اور سردیوں میں دور دراز سے ہجرت کرنے والے مختلف النوع پرندے یہاں آکر اس کی گود میں پناہ لیتے ہیں ۔
۲۲ /اگست ۲۰۱۹ کو نیو انڈین ایکسپریس انگریزی اخبار نے اس جھیل کے متعلق معلومات فراہم کرتے ہوئے لکھا :
’’یہاں ہجرت کرنے والے پرندوں میں سے ۹۰ قسم کے پرندے ایسے ہیں جن کے عالمی طور پر نا بود ہوجانے کا خطرہ ہے۔‘‘
بھاگلپور یونیورسٹی کے شعبۂ نباتات کے اساتذہ انتر یامی کمار آدھیشور اور سنیل کے -چودھری اپنے مشترکہ تحقیقی،نباتاتی اور معلوماتی مضمون
’’ Diversity of macrophytic species of gogabil lake wetland in Katihar, Bihar, India ‘‘ میں لکھتے ہیں :
In the present study, altogether 137 macrophytic species were recorded and species were grouped under different categories, i.e. marginal (74 species), sub-merged (11 species), floating (13 species) and emergent (39 species).
(موجودہ تحقیق میں ۱۳۷ آبی پودے زیر ریکارڈ آئے اور ان پودوں کو حاشیائی (۷۴) نصف ڈوبے ہوئے (۱۱) پانی کے اوپر تیرتے ہوئے (۱۳)، ناگہانی طور پر خود رو پودے (۳۹) والے مختلف درجوں میں منقسم کیا گیا ۔)
اس اہم تحقیق سے اخذ کردہ اقتباس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہاں نہ صرف مہجری پرندوں کا بسیرا ہے بلکہ نایاب و کم یاب قسم کے بیش قیمت آبی پودے بھی موجود ہیں ۔ مگر بے حد افسوس کی بات ہے کہ قدرت کا یہ خزینہ اب تک قابل قدر توجہات سے محروم ہے۔
حکومتی طور پر وقت بوقت اس جانب توجہ بھی دی گئی مگر شومیٔ قسمت کہ اس خطے میں واقع گوگابیل جھیل سیر و سیاحت سے روشناس ہونا تو دور مقامی لوگوں کی نظر میں بھی کوئی خاص اہمیت کی حامل نہیں بن سکی ۔۲۳ ستمبر ۲۰۲۰ کو اے بی پی نیوز ہندی نے حکومتی طور پر اس جانب دی جانے والی توجہات پر مشتمل ایک اچھی اور خوش آئند خبر بھی شائع کی تھی ۔ اس خبر کے ایک حصے میں مندرج ہے کہ :
’’اس جھیل میں آنے والے غیر ملکی پرندوں کا شکار نہیں کیا جائے اس کے لیے مقامی لوگوں نے ایک حکم نامہ بھی تیار کیا ہے جس میں اس بات کی بھی ممانعت کی گئی ہے کہ آس پاس کے جنگلات سے پیڑ پودے بھی نہیں کاٹے جائیں گے ۔ اس کے تحفظ کے لیے اعلان نامے بھی نصب کیے گئے ہیں جس میں درج ہے ’رجسٹرڈ حکم نامہ ‘ ۔ ‘‘
کٹیہار ریلوے اسٹیشن سے ملک بھر میں موصلات کی سہولت ہے ۔ ایک بڑے ریلوے جنکشن سے قریب اس قدرتی وسائل کو اگر کما حقہ سنوارا گیا تو وہ دن دور نہیں جب یہ جھیل ملک بھر کے سیر سیاحت کرنے والوں کو اپنی طرف کشش ثقل کی طرح کھینچے گی بلکہ اس علاقے کی ترقی اور فروغ نیز تجارتی امور کو مزید بڑھانے میں بھی نمایاں کردار ادا کرسکتی ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں سے دنیا بھر کی جھیلوں کا پانی خشک ہو رہا ہے۔ انسانوں نے اپنی لالچ اور لاپرواہی سے دنیا کے قدرتی ذخائر کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ مثلا ٹائمس آف انڈیا انگریزی اخبار میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق مہاشٹرامیٹرو کا ملبہ فٹولا جھیل میں پھینکا گیا ۔الجزیرہ میں شائع سائنس دانوں کی تحقیق کہتی ہے کہ ۱۹۹۰ کی دہائی سے ہی دنیا کی بڑی جھیلوں میں سے نصف جھیلیں خشکی کی طرف گامزن ہیں۔ اس کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ عالمی حرارت میں اضافہ ہے۔
اگر جھیلیں یونہی بے توجہی کی شکار رہیں تو نہ صرف ماحولیات کا توازن بگڑے گا بلکہ بجلی کی پیداوار بھی متاثر ہوگی ۔ ہندوستان میں پیدا کی جانے والی بجلی کا ۲۲ فیصد حصہ مختلف جھیلوں پر نصب ہائیڈرو الکٹرک پاور سے تیار ہوتاہے ۔لہذا جھیلوں کا مسلسل خشک ہونا کسی بھی زاویے سے نیک شگون نہیں ہے۔
اسی سال فروری میں عالمی یوم ماحولیات کے موقعے پر وزیر مملکت جناب اشونی کمار چوبے نے پٹنہ میں جھیلوں کے تحفظ پر منعقد ایک پروگرام کے دوران مختلف قسم کی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا تاکہ ملک کے باشندوں کو آبی ذخائر کی اہمیت سے آگاہ کیا جا سکے ۔مرکزی سرکار کے شعبۂ ماحولیات اور جنگلات کی جانب سے اس قسم کے پروگراموں کا پٹنہ میں انعقاد عوامی بیداری کے لیے قابل تعریف ہے لیکن ان اقدامات کو زمینی طور پر بروئے کار لانا اس سے بھی زیادہ اہم ہوگا اگر ہماری سرکاریں عوامی بیداری کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں موجود جھیلوں کی حفاظت کے لیے ٹھوس قدم اٹھائے اور مالیاتی وسائل کی فراہمی کے ذریعے گوگابیل سمیت دیگر جھیلوں کو منظرنامے پر لانے کی ممکن تدابیر اختیار کرے۔
اگر ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ ہم ضلع کٹیہار کی اس قدرتی دولت گوگابیل جھیل کو ترقی کے کن منازل تک لے جاسکتے ہیں تو ہمیں دوسرے صوبوں میں اس سمت کی گئی کاروائیوں کو دیکھنا ہوگا ۔بہار کے سابق نائب وزیر اعلی جب محکمۂ جنگلیات کے بھی وزیر تھے تب انہوں نے بذات خود گوگابیل جھیل کے شفاف پانیوں پر مقامی کشتی کی سواری کرکے یہاں کے خوبصورت قدرتی نظاروں کا جائزہ لیا تھا تب ایک امید سی جگی تھی کہ جھیل میں رہنے والے بے شمار نایاب پرندوں کے اس گھر کو آلودگی ، ماہی گیروں کی حرکت اور کسانوں کی زہریلی جراثیم کش دواؤں سے نجات ملے گی اور ساتھ ہی اس جگہ کو باقاعدہ طور پر سیرو سیاحت کے لیے منتخب کیا جائے گا ۔
امید ہے کہ موجودہ سرکار اس جانب توجہ دے اور قدرت کے اس قیمتی سرمایے کو گوشۂ گمنامی سے نکال کر آبی پرندوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کے لیے بھی باعث فخر و انبساط بنائے اور ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک کرنے کا تدارک کرے۔

Wasim Ahmad Alimi
(NET JRF, Gold-Medalist JMI New Delhi, Translator C.S.D.U.D. Govt of Bihar, Former Translator, CCRUM, Ministry of Ayush, Govt of India, Email-wasimahmadalimi@gmail.com