ادب سرائے

حضرت آسیؔ کی نعتیہ شاعری

پروفیسر فاروق احمد صدیقی

ایک عالم ربانی، صوفی باصفا اور شاعر خوش نوا کی حیثیت سے حضرت مولانا شاہ محمدعبدالعلیم آسیؔ غازی پوری علیہ الرحمہ کی ذات والا صفات ہماری مذہبی و ادبی تاریخ میں بے حد ممتاز و محترم ہے۔ سلسلۂ رشیدیہ کے ایک عارف کامل اور پیر لاثانی کی حیثیت سے انھوں نے ایک عالم کو فیض یاب کیا ہے۔ ان کے تقویٰ، طہارت، اخلاص، للہیت اور خشیت الٰہی کے تعارف کے لیے کسی سوگند اور گواہ کی حاجت نہیں۔ ان کے فیوض و برکات کا بادل ان کی حیات ظاہری میں بھی ٹوٹ کر برسا اور آج بھی ان کی فیاضیوں اور فیض رسانیوں کا نورانی سلسلہ جاری ہے مگر ؎
آنکھ والا ترے جلوئوں کا تماشا دیکھے
دیدئہ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے
حضرت آسیؔ کی شخصیت کثیرالجہات ہے مگر یہاں ان کی صرف شاعرانہ حیثیت زیربحث ہے۔ بحیثیت شاعر خوش کلام و خوش نوا وہ اپنے معاصرین میں مرکز توجہ بنے رہے اور اپنی بے مثل استادی و فن کاری سے انھوںنے اپنے پورے دور کو متاثر کیا؛ لیکن ان کے وصال کے بعد ان کی شاعرانہ حیثیت ان کی روحانی حیثیت کے مقابلے میں بتدریج مغلو ب ہوتی چلی گئی۔ ادبی دنیا میں ان کو روشناس کرانے کی اولین مخلصانہ کوشش اردو کے ممتاز ترقی پسند نقاد پروفیسر مجنوںؔ گورکھپوری نے کی۔ انھوں نے ایک طویل فاضلانہ مضمون لکھ کر حضرت آسی ؔکے شاعرانہ مقام و مرتبے کو متعین کرنے میں گہری دلچسپی لی۔ انھوں نے ان کے فکروفن کے مختلف جہات کو پوری دیانت داری اور غیرجانب داری کے ساتھ منور کیا؛ لیکن ان کی یہ ساری کاوشیں حضرت آسیؔ کی غزل گوئی کے ادراک و احاطے تک محدود رہیں۔ دوسری اصناف میں حضرت آسیؔ کی فتوحات کو انھوں نے ہاتھ نہیں لگایا۔ جب کہ غزل گوئی کے علاوہ حضرت کے کارنامے نعت، رباعی، قصیدہ اور قطعات کی شکل میں بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اردو کے ممتاز شاعر و نقاد فراقؔ گورکھپوری نے حضرت آسیؔ کی رباعی نگاری سے اپنی بے پناہ قربت و وابستگی کاا ظہار کیا ہے۔ ان کے علاوہ اورجن ادیبوں اور سخن شناسوں نے حضرت آسیؔ کی شاعرانہ کارگزاریوں کا جائزہ لیا ہے، ادبی دنیا میں ان کی کوئی خاص پہچان نہیں۔ اس لیے ان کے تذکرے سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔
غزل کے علاوہ ان کی فن کارانہ بصیرت سب سے زیادہ صنف نعت میں بروئے کار آیا ہے۔ نعت گوئی سے حضرت آسیؔ جیسے عاشق رسول کو دلچسپی نہیں ہوتی تویہ حیرت کی بات ہوتی۔ پھول کی تعریف کچھ بلبل کو ہی زیب دیتی ہے۔ اس لیے حضرت آسیؔ نے ایک عالی مرتبت مداح رسول کی حیثیت سے جو روح پرورکلام کا قیمتی سرمایہ چھوڑا ہے، وہ اقدار اورمعیار دونوں اعتبار سے مستغنی عن التوصیف ہے۔ نعت جیسا کہ سب کو معلوم ہے ممدوح کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف کے لیے مخصوص ہے ؛لیکن اس کے لیے جذبۂ صادق اورخامۂ ہشیار لازمی شرطیں ہیں۔ ایک نعت گو کو حضور پاک صاحب لولاک کی معظم ومحتشم ذات سے جب تک سچی محبت اور والہانہ عقیدت نہیں ہو گی، وہ نعت گوئی کے تقاضے کا ادنیٰ حق بھی ادا نہیں کرسکتا۔ یہ تو معلوم ہے کہ نعت گوئی تیز تلوار کی دھار پر قدم رکھنے کے برابر ہے۔ شاعر کا قلم جب تک حددرجہ محتاط اور موید من اللہ نہیں ہو، وہ اس راہ دشوار کو طے نہیںکرسکتا۔ حضرت آسی ؔنہ صرف یہ کہ دونوں شرطوں کے امین و علمبردار تھے بلکہ قائل ومبلغ بھی تھے۔ اس لیے ان کے یہاں کسی بھی طرح کی کمی اور کجی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اِلا ّیہ کہ قاری یا سامع دینی بصیرت سے محروم اور بالکل سطحی ذہن و صلاحیت کا مالک ہو تو تفہیم شعر کے مرحلے میں وہ ٹھوکریں کھا سکتا ہے، جیسا کہ حضرت آسی ؔکے درج ذیل معروف شعر کے ساتھ سانحہ ہوا ؎
وہی جو مستوی عرش ہے خدا ہو کر
اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفی ہو کر
اس شعر کو حضرت آسی ؔکے زمانے میں بھی اعتراضات کا نشانہ بنایا گیا اور آج بھی یہ مکروہ سلسلہ جاری ہے جس کا تقریر و تحریر میں مظاہرہ ہوتا رہتا ہے بلکہ اب تو ظالموں نے یہاں تک ناروا جسارت کی ہے کہ اصل شعر کے متن میں اپنی طرف سے تحریف کرکے ’’وہی جو مستوی عرش ہے‘‘ کو ’’وہ جو مستوی عرش تھا‘‘ لکھ کر شاعر کو مطعون کرنے کا جواز فراہم کیا ہے۔ کاش ان نابالغ ذہنوں کو یہ علم واحساس ہوتا کہ ’’ہے‘ ‘کو ’’تھا‘‘ کردینے سے کس طرح مفہوم میں زمین و آسمان کا فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ اس شعر کی تفہیم کے سلسلے میں اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجاے میں خود حضرت موصوف کا ارشاد نقل کر دینا چاہتا ہوں، تاکہ غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کو لگام لگ جائے۔ حضرت آسی ؔکے دیوان ’عین المعارف‘ کے مؤلف سید شاہ شاہد علی سبز پوش رشید ی رقم طراز ہیں:
’’حضرت کا ایک مطلع ہے جس پر کم علم مولویوں نے کفر اور شرک کا فتویٰ دینے سے دریغ نہیں کیا۔ حضرت نے جب یہ غزل کہی تھی، میں خدمت میںحاضر تھا۔ ‘‘ مطلع یہ ہے ؎
وہی جو مستوی عرش ہے خدا ہوکر
اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفی ہوکر
جب یہ مطلع فرمایا تو میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ ’’میاں شاہد! جہلا اس شعر پر اعتراض کریںگے مگر ان کے اعتراض کا جواب مصرعۂ اولیٰ میں موجود ہے یعنی وہ اب بھی مستوی علی العرش ہے۔ افسوس کہ اگر معترضین حضرت شیخ اکبر رضی اللہ عنہ کی فصوص الحکم وغیرہ دیکھے ہوتے تو اس گستاخی کی جرأت نہ ہوتی۔ اگر مصرعۂ اولیٰ میں ’’وہی جو مستوی عرش تھا خداہوکر‘‘ ہوتاتو البتہ ان کا اعتراض خدا کے مجسم ہونے کا صحیح ہوتا، وہ تواب بھی مستوی علی العرش ہے۔ مدینہ میں اترنا باعتبار نزولِ صفات کے ہے جیسے آفتاب آئینے میں اترتا ہے ’’الان کماکان‘‘
[عین المعارف ص: ۵۸-۵۷]
اس غزل کا مقطع ہے ؎
نثار کیوں نہ کریں جان اس پر اے آسیؔ
فلک سے جاکے لگے جس کی خاک پا ہوکر
اس شعر میںحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب آپ نے سیرسماوات فرمائی تو آپ کی خاک پا کو تمام افلاک نے سرمۂ بینش سمجھ کر آنکھوں سے لگایا تو ہم زمین کی ہستی پر رہنے والوں کو توبدرجۂ اولیٰ اس خاک کی عظمت و تقدس پر اپنی جان نچھاور کرنی چاہیے۔
حضرت آسیؔ کی سب سے مشہور نعت پاک راقم الحروف کی نظروں میں وہ ہے جو مطلع ذیل سے شروع ہوتی ہے ؎
نہ میرے دل، نہ جگر پر، نہ دیدئہ تر پر
کرم کرے وہ نشانِ قدم تو پتھر پر
مجھ تک ایک زبانی روایت یہ پہنچی ہے کہ جب نقش پاے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خانقاہ رشیدیہ، جون پور میں یا خود شہر غازی پور کی کسی خانقاہ میں پہنچا تو اس کو دیکھ کر آپ میں تحریک پیدا ہوئی اور متاعِ لوح وقلم لے کر بیٹھ گئے جس کے نتیجے میں یہ نواشعار پر مشتمل نعت پاک وجود میں آگئی جس کا ہر شعر انتخاب کا درجہ رکھتا ہے۔ فکری و فنی دونوں اعتبار سے اس کا ہر شعر اپنی مثال آپ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت آسیؔ کے زمانے سے لے کر آج تک یہ نعت پاک میلاد شریف کی محفلوں، عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں، خانقاہوں کی روحانی تقریبات اور دیگر دینی مجلسوں میں بڑے ذوق وشوق کے ساتھ پڑھی جاتی ہے اور خود راقم الحروف بھی اس نعت پاک کو پڑھ کر اپنے ایمان کو مجلیٰ کرتا رہتا ہے۔ اس کے دو اشعار تو ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں اور وہ یہ ہیں ؎
پلادے آج کہ مرتے ہیں رند اے ساقی
ضرور کیا کہ یہ جلسہ ہو حوض کوثر پر
اخیر وقت ہے آسیؔ چلو مدینے کو
نثار ہوکے مرو تربت پیمبر پر
مدینہ پاک سے ایسی والہانہ عقیدت ووابستگی اور وہاں اپنی جان آفریں کو نذر کرنے کا تصور کس قدرعشق رسول میں فنا ہونے کا مظہر ہے۔ اس کا صحیح اندازہ وہی کرسکتے ہیں جن کے سامنے شاعر مشرق علامہ اقبال کا یہ شعر موجود ہو ؎
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس
اخیر وقت میں مدینہ پاک جانے کی آرزو اس لیے بھی بے تاب کیے ہوئے ہے کہ بقول سیدی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی وہ شہر شفاعت نگر ہے۔ ملاحظہ ہو ؎
طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جائو آنکھیں بند
سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے
حضرت آسیؔ کی زیرنظر نعت پاک کا یہ شعر بھی بڑا ہی ایمان افروز اور شفاعت آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل بھروسہ رکھنے پر شاہد ہے۔ زور بیان ملاحظہ ہو ؎
گنہ گار ہوں میں واعظو! تمھیں کیا فکر
مرا معاملہ چھوڑو شفیع محشر پر
شفیع محشر صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت آسیؔ کا غیرمتزلزل ایمان ہم گنہ گاروں کے لیے چشم کشا ہے۔ ان کی مرضی اور توسل کے بغیرکسی بھی شخص کی جان بخشی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس ایک شعر کے ذریعے ملت اسلامیہ کو حضرت آسیؔ نے جو پیغام دیا ہے اس کو اپنے خانہ دل میں محفوظ کرلینے کی ضرورت ہے۔ اسی مفہوم کا ان کا یہ شعر بھی بہت بلند پایہ ہے ؎
نہیں اپنے گناہوں کا مجھے غم
میں آسیؔ ہوں گنہ گارِ محمد
حضرت آسیؔ کی ایک نعت پاک کا مطلع ہے ؎
وہاں پہنچ کے یہ کہنا صبا سلام کے بعد
کہ تیرے نام کی رٹ ہے خدا کے نام کے بعد
اس شعر کو کلمہ طیبہ کا بہت خوبصورت اور ایمان افروز ترجمہ کہا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ظاہر ہے عہد ِصحابہ سے لے کر آج تک ہر مومن مخلص کا یہی ایمان و ایقان ہے کہ خدا کے بعد محبوب خدا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہی مقام و مرتبہ ہے۔ وہی جان ایمان ہیں، وہی شفیع محشر ہیں۔ ان کی نگاہ کرم کے بغیر نجات و مغفرت کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ان کے نام کی رٹ خدا کے نام کے بعد تو ہونی ہی چاہیے۔ یہ شعر اپنی لازوال صداقت کے باعث آفاقی شہرت کا حامل ہوا اور آج کے توہب زدہ ماحول میں بھی یہ شعر اپنی حقانیت کا پرچم لہرا رہا ہے۔ حضرت آسیؔ نے اس شعر کے علاوہ اور کوئی نعتیہ شعر نہیں کہا ہوتا تو بھی اس شعر کی بدولت اردو کے مشاہیر نعت گو شعرا کی صف میں مقام امتیاز رکھتے۔
ان کی ایک نعت پاک کا مطلع ہے ؎
کہاں گلشن کہاں روئے محمد
کہاں سنبل کہاں روئے محمد
یہ سات اشعار پر مشتمل ہے اور ہر شعرفکربلند اور فن لطیف کا آئینہ دار ہے؛ لیکن مطلع تو اپنی مثال آپ ہے۔ اس میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرئہ انور کے سامنے گلشن وگلزار کو ناقابل التفات قرار دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ پھولوں کا راجا گلاب بھی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روئے انور کے سامنے ہیچ ہے، کیوں کہ وہ تو خود آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جسم اطہر سے ٹپکے ہوئے پسینے کی پیداوار ہے، جیسا کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینۂ مبارک سے گلاب کا پھول پیدا ہوا ہے، نیز مروی ہے کہ فرمایا معراج سے واپسی پر میرے پسینے کا قطرہ زمین پر گرا تو اس سے گلاب کی روئیدگی ہوئی جو کوئی میری خوشبو سونگھنا چاہے وہ گلاب کو سونگھے۔ ‘‘ [مدارج النبوۃ، حصہ اول اردوترجمہ ص: ۴۷، ۴۶]
اس مضمون کو حضرت رضا ؔبریلوی نے بھی باندھا ہے اور حق یہ ہے کہ اس کا حق ادا کردیا ہے۔ ملاحظہ ہو ؎
وہ گلاب لبہائے نازک ان کے ہزاروں چھڑکتے ہیں پھول جن سے
گلاب گلشن میں دیکھے بلبل یہ دیکھ گلشن گلاب میںہے
حضرت آسیؔ کی زیرنظر نعت کا یہ شعر بھی نہایت عمدہ ہے ؎
ہے کیا رحم و کرم بندوں پر اپنے
خدا سے ملتی ہے خوئے محمد
یہاں مصرع اول میں رحم وکرم کے الفاظ بہت ہی جامعیت کے حامل ہیں۔ یہاں دراصل آیت پاک ’’و بالمومنین رؤف رحیم‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے حضرت آسیؔ نے کہا ہے کہ ’’خدا سے ملتی ہے خوئے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ یعنی رحمت ورافت کی صفت دونوں میں موجود ہے۔ خدا بھی رئوف ورحیم ہے اور رسول بھی اس کے کرم سے رئوف و رحیم ہیں۔
اوریہ تو امت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ ’’محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا‘‘یعنی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہی وجہِ تخلیق عالم وآدم ہیں۔ حضرت نے بھی اس مضمون کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنی ایک نعت میں باندھا ہے۔ ملاحظہ ہو ؎
اے سر تخلیق آدم صلی اللہ علیک و سلم
اے نور خلاق عالم صلی اللہ علیک و سلم
تھا نہیں کچھ بھی نشان عالم
آپ تھے جب سلطان عالم
صدقے آپ کے جان عالم صلی اللہ علیک وسلم
اس نعت پاک کا بھی ہر شعر منتخب ہے۔
حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کاملہ اورشفاعت کبریٰ پر ایمان کامل رکھنے کی بدولت حضرت آسی ؔیوم الحساب کی داروگیر سے خود کو بالکل مامون سمجھتے ہیں اور بڑی مستی وسرشاری کے عالم میں کہتے ہیں ؎
جھومتا جاتا ہے آسیؔ حشر میں
عاشقانِ سرورِ عالم کے ساتھ
کہیں جھومتے جھامتے ہوئے جانا اسی شخص کو زیب دیتا ہے جو تمام تفکرات اور ترددات سے آزاد ہو۔ قیامت کا ہولناک منظر جہاں نفسی نفسی کا عالم ہوگا اور ہر شخص اپنی نجات کے غم میں کرب و اضطراب سے دوچار ہوگا۔ وہاں جھومتے ہوئے جانے کی جسارت وہی کرسکتا ہے جس کو اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت بے پایاں اور بندہ نوازی پر غیرمعمولی بھروسہ ہوگا۔ حضرت آسیؔ غازی پوری یقینا اپنے آپ کو ان خاصان خدا اورخاصان رسول میںسمجھتے ہیں جن کے لیے یہ سعادت مقدر ہے۔ اسی لیے ایمان ویقین کی گہرائی میں ڈوب کر انھوں نے یہ شعر کہا ہے۔ اس شعر کا لب و لہجہ اورطرز ادا بھی بے حد دل نشیں اور روح پر ہے۔ اسی قبیل کا درج ذیل شعر بھی ہے جو فکری اعتبار سے بہت ہی بلند وبرگزیدہ ہے اوراس میں بھی حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی آسی ؔنوازی پر بے انتہا فخر ومسرت کا اظہار کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو ؎
مجھ سے مجرم کے لیے خلد بریں
مہربانی ہے رسول اللہ کی
حضرت آسیؔ کو حضورپاک علیہ الصلوٰہ والسلام سے تو بے پایاں عقیدت ومحبت ہے ہی آپ کے مسکن و مدفن شہر مدینہ طیبہ اور وہاں کے ذرے ذرے اورچپے چپے سے بھی والہانہ لگائو ہے اور یہ ہونا بھی چاہیے تھا۔ بقول شاعر ؎
من مذہبی حب الدیار لاہلہا
و فی العشق مما یعشقون مذاہب
صرف ایک مثال ملاحظہ ہو۔ دیکھیے وہ کوے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کس احترام واکرام کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں ؎
اے پائے نظر! ہوش میں آ، کوے نبی ہے
آنکھوں سے بھی چلنا تو یہاں بے ادبی ہے
کوے نبی میں سر کے بل چلنے کی تمنا توہمارے اور بزرگوں نے بھی کی ہے، لیکن آنکھوں سے بھی چلنے کو بے ادبی پر محمول کرنا یہ بلا شرکت غیرے حضرت آسیؔ کا ہی حصہ ہے۔
حضرت آسیؔ کی ایک نعت ہے جو درج ذیل مطلع سے شروع ہوتی ہے ؎
یا نبی دل ہے تیرے عشق میں جلنے کے لیے
جان بے تاب ہے فرقت میں نکلنے کے لیے
اس کا ایک شعر یہ بھی ہے ؎
ترے عشاق کے چہرے پہ جو آتا ہے عرق
حوریں لے جاتی ہیں پوشاک میں ملنے کے لیے
حضور جان نور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر سے نکلے ہوئے پسینے کی عظمت تو مسلم ہے۔ اس سلسلے میں حضرت ام سلیم کا عمل ایک مشہور واقعہ ہے۔ تفصیل سے گریز کرتے ہوئے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینۂ اقدس کو بطورمشک وعنبراستعمال کرنے کی روایتیں تومعلوم و معروف ہیں ؛لیکن عشاقِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہروں کے پسینے کو حورانِ جنت کا اپنی پوشاک میں ملنے کے لیے لے جانا یقینا ایک نیا تصور اور بڑا پاکیزہ خیال ہے۔ میںاپنے مطالعے کی محدودیت کا اعتراف کرتے ہوئے بلاتأمل یہ کہنا چاہوںگا کہ اردو کی نعتیہ شاعری کے سرمایے میں اس رنگ وآہنگ کا شعر مجھے کہیں نہیں ملا۔ یہ خاص حضرت آسی ؔکی قوتِ ایجاد اور فکربلند کی اہم عطا ہے جس کے لیے ہم ان کی روح معظم کو بصدخلوص و احترام سلام عرض کرتے ہیں۔
حضرت آسیؔ کی ایک مشہور نعت وہ ہے جو فارسی کے ممتاز و محترم مداح رسول حضرت عبدالرحمن جامیؔ کے کلام پر تضمین کی حیثیت رکھتی ہے۔ تضمین نگاری کے لیے غیرمعمولی انتاجی صلاحیت اور قادرالکلامی لازمی شرطیں ہیں۔ ظاہر ہے حضرت آسیؔ ان اوصاف وکمالات کے مظہر اتم تھے، اس لیے انھوں نے نوبندوں پر مشتمل ایک بڑی خوبصورت تضمین کی ہے جو مخمس کی ہیئت میں ہے۔ بخوف طوالت یہاں صرف دو بند نقل کیے جاتے ہیں ؎
محال خرد ہے مثال محمد
سر عرش تک پا ئمال محمد
یہ پھیلا ہے نور کمال محمد
جہاں روشن است از جمال محمد
دلم تازہ گشت از وصال محمد
———
عبث درد عصیاںسے تو کیوں کراہے
شفا اس مرض سے اگر اپنی چاہے
تو لازم ہے ذکر نبی میں نبا ہے
خوشا منزل و مسجد و خانقاہے
کہ درو ے بود قیل و قالِ محمد
حضرت آسی ؔکی تمام نعتوں یا تمام نعتیہ اشعار کا تجزیاتی مطالعہ اس مضمون میں ممکن نہیں،اس کے فکری وفنی جائزے کے لیے ایک دفترچاہیے۔ اس لیے میں اپنی گفتگو ان کے اس بے حد مقبول شعر پر تمام کر رہا ہوں جو ضرب المثل کی حیثیت بھی اختیار کرچکا ہے۔ ہر مداح مصطفی اپنی تحریر وتقریر میں بلاتکلف اس کا حوالہ دیتا ہے۔ اس لیے کہ اس میں جو ایک خاص روحانی لذت و کیفیت ہے اس کا صحیح اندازہ اہل نظر کرسکتے ہیں۔ ملاحظہ ہو ؎
جو شے تری نگاہ سے گزرے دُرود پڑھ
ہر جزو کل ہے مظہر انوار مصطفی
یعنی کاہ سے کہکشاں تک اور ذرہ سے آفتاب تک حضورانور صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانیت پہ شاہد ہے۔ اس لیے ہم تما م وفا شعار غلاموں کا یہی وظیفہ ہونا چاہیے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں زیادہ سے زیادہ ہدیۂ درود بھیجتے رہیں اسی میں ہماری اُخروی نجات، کامیابی اورسربلندی کا راز مضمر ہے ؎
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
lll

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

ادب سرائے

ممتاز نیر : شخصیت اور شاعری( شعری مجموعہ ‘ وفا کے پھول ‘ کے تناظر میں )

احسان قاسمی کچھ لوگ ملٹی وٹامن ملٹی مِنرل کیپسول جیسے ہوتے ہیں ۔ بظاہر ایک کیپسول ۔۔۔۔ لیکن اگر اس
ادب سرائے

مظفر ابدالی كی شاعری پر ایك نظر(صفر سے صفر تك كے حوالے سے)

وسیمہ اختر ریسرچ اسكالر:شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی اردو شاعری کا سفر کئی صدیوں سے جاری ہے جس میں