بہار انتخاب میں کانگریس کا بحران، ٹکٹ بٹوارے پر بڑھی بغاوت

بہار انتخاب میں کانگریس بحران کا شکار، ٹکٹ بٹوارے پر بغاوت، رہنماؤں نے قیادت پر مالی بے ضابطگی کے الزامات لگائے۔
بہار اسمبلی انتخابات کے لیے کانگریس نے اتوار کی رات اپنی چوتھی فہرست جاری کی، جس میں چھ مزید امیدواروں کے نام شامل ہیں۔ اس طرح پارٹی نے اب تک ساٹھ نشستوں پر اپنے امیدوار میدان میں اتار دیے ہیں۔ لیکن ٹکٹ تقسیم کے فوراً بعد پارٹی میں زبردست تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ کئی سینئر رہنماؤں نے قیادت کے فیصلوں پر ناراضی ظاہر کرتے ہوئے ٹکٹ فروخت کیے جانے تک کے الزامات لگائے ہیں۔رپورٹوں کے مطابق، راہول گاندھی نے بہار میں کانگریس کو دوبارہ مضبوط کرنے کی ذمہ داری اپنے قریبی ساتھیوں کو سونپی تھی۔ کرشنا الّاورُو کو بہار کا انچارج، راجیش رام کو ریاستی صدر، جبکہ شاہنواز عالم اور دیویندر یادو کو معاون انچارج بنایا گیا تھا۔ لیکن اب یہی رہنما تنقید کے دائرے میں آ گئے ہیں۔بہار کانگریس کے کئی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ریاستی انچارج کرشنا الّاورُو اور صدر راجیش رام نے ٹکٹ فروخت کیے ہیں۔ سابق وزیر اور موجودہ ایم ایل اے آفاق عالم، ایم پی پپّو یادو اور شکیل احمد خان سمیت کئی رہنماؤں نے کھل کر قیادت کے فیصلوں پر سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان ہی رہنماؤں کی وجہ سے نہ صرف مہاگٹھ بندھن (انڈیا بلاک) میں اختلافات بڑھے بلکہ کانگریس کے اندر بھی گھمسان مچ گیا۔پارٹی کے اندر یہ بھی شکایت ہے کہ راہول گاندھی کے نامزد کردہ رہنما نہ تو آر جے ڈی کے ساتھ نشستوں کی منصفانہ تقسیم کر سکے اور نہ ہی موزوں امیدواروں کا انتخاب۔ نتیجتاً بہار کی کئی سیٹوں پر مہاگٹھ بندھن کے اتحادی ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اترے ہیں۔ لال گنج، ویشالی، راجاپاکڑ، بچھواڑا، روصڑا، بہار شریف، گورابورام اور کہلگاؤں جیسی نشستوں پر ٹکر صاف نظر آ رہی ہے۔
آفاق عالم، جو تین بار سے مسلسل جیتتے آ رہے تھے، اس بار ٹکٹ سے محروم کر دیے گئے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ “پارٹی میں اب نظریہ نہیں، بلکہ پیسہ بول رہا ہے۔ جو رقم دے رہا ہے، اسے ہی ٹکٹ دیا جا رہا ہے۔” ان کا کہنا ہے کہ قصبہ سیٹ پر ان کا ٹکٹ کاٹ کر ایسے شخص کو دیا گیا جو مقامی سطح پر کبھی الیکشن نہیں جیت سکا۔ ان کے مطابق، کانگریس کی قیادت پارٹی کو برباد کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔اسی طرح چھترپتی یادو، جو خگڑیا کے ایم ایل اے تھے، ان کا بھی ٹکٹ منسوخ کر دیا گیا۔ ان کے ساتھ ساتھ پارٹی کے کئی سابق وزرا، ضلع صدور اور یوتھ کانگریس کے رہنماجن میں آنانند مادھو، گجانند شاہی، بَنٹی چودھری، کَنچنا کماری سنگھ، بچّو کمار وِیرو، راجکمار راجن، ناگندر پاسوان وِکل، اور مدھورندر کمار سنگھ شامل ہیں نے کھلے عام الزام لگایا ہے کہ ٹکٹ بٹوارے میں دھونس، سفارش اور مالی فائدے کو ترجیح دی گئی۔
آنانند مادھو کا کہنا تھا کہ ریاستی صدر اور انچارج نے راہول گاندھی کی ہدایات کو نظرانداز کر کے ذاتی مفاد میں ٹکٹ بانٹے۔ ان کے مطابق، امیدواروں کے انتخاب میں نہ تنظیمی مشورہ لیا گیا اور نہ ہی علاقائی توازن کا خیال رکھا گیا۔ بہت سے ایسے چہرے ٹکٹ پا گئے جو پچھلے پانچ برسوں میں پارٹی کی سرگرمیوں میں شامل تک نہیں تھے۔ ناراض رہنماؤں کا ماننا ہے کہ ایسی صورت میں کانگریس کے لیے دس نشستیں جیتنا بھی مشکل ہوگا۔پارٹی کے سینئر رہنما اور رکن پارلیمان طارق انور نے بھی برہمی ظاہر کی۔ انہوں نے بربیگھا سیٹ سے گجندرشاہی عرف مُنّا ششاہیکا ٹکٹ کاٹنے پر سخت اعتراض کیا۔ ان کے مطابق، مُنّا شاہی 2020 کے الیکشن میں محض 113 ووٹ سے ہارے تھے، اس کے باوجود ان کا ٹکٹ کاٹ کر ایسے امیدوار کو نامزد کیا گیا جو پچھلے انتخاب میں 30 ہزار ووٹوں کے فرق سے ہارا تھا۔ طارق انور نے کہا کہ “یہ رویہ کارکنوں کا حوصلہ توڑے گا اور زمینی سطح کے رہنماؤں کو مایوس کرے گا۔”
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی کے نامزد کردہ “سِپہ سالار” بہار کی زمینی سیاست کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ نہ کرشنا الّاورُو اور نہ شاہنواز عالم نے کبھی الیکشن لڑا، اس لیے مقامی زمینی حقائق کو سمجھنے میں غلطیاں ہوئیں۔ ذرائع کے مطابق، یہ رہنما آر جے ڈی کو کمزور کرنے پر زیادہ توجہ دے رہے تھے، کیونکہ ان کے خیال میں آر جے ڈی نے وہی سیاسی زمین سنبھال رکھی ہے جو کبھی کانگریس کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس نے تیزسوی یادو کو وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر تسلیم کرنے سے گریز کیا اور آج اس ضد کا خمیازہ اسے ٹکٹ تقسیم سے لے کر اتحاد میں ٹوٹ تک بھگتنا پڑ رہا ہے۔