سیاسی بصیرت

جمہوریت و سیکولرزم کشی اپنے شباب پر

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

۶؍ اکتوبر بروز پیر ہندوستانی جمہوریت اور دستورِ ہند کے لیے ایک بار پھر سے کالا دن ثابت ہوا، جب ایک معمر وکیل کی طرف سے بھری عدالت میں چیف جسٹس آف انڈیا پر جوتا پھینکا گیا۔ حملہ آور کی شناخت ۷۲؍ سالہ ایڈووکیٹ راکیش کشور کے طور پر سامنے آئی ہے۔ لطف کی بات یہ ہےکہ جب مبینہ وکیل کو عدالت سے باہر لے جایا جا رہا تھا، تو اُس نے ’’سناتن کا اپمان نہیں سہےگا ہندوستان‘‘ کے نعرے بھی لگائے۔ حملے کی تہہ تک پہنچنے کے بعد جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ کہ وکیل موصوف چیف جسٹس آف انڈیا کے ایک فیصلے اور تبصرے سے ناراض تھا۔بنیادی طور پر یہ سانحہ صرف عدلیہ کی سیکیورٹی پر نہیں سوال اُٹھاتا ہے، بلکہ مذہبی جذبات کی بنیاد پر عدالتی عمل اور اُس کی آزادی میں مداخلت کی ایک خطرناک مثال بھی قائم کرتا ہے۔
آج کا بڑا سوال یہ ہے کہ آخر اِس طرح کا حیرت انگیز سانحہ کیوں پیش آیا؟ اِس کے پیچھے اسباب و عوامل کیا ہیں؟ جہاں تک ہمارا مشاہدہ ہے، تو یہ سانحہ اچانک یا انجانے میں پیش نہیں آیا، بلکہ یہ ایک منظم شازس اور زعفرانی ذہنیت کے تحت انجام دیا گیا ہے۔ یہ کسے پتا نہیں ہے کہ دستورِ ہند اور عدلیہ کے سیکولر مزاج پر حملہ اور اُس کو کالعدم قرار دینے کی شازسیں آزادی کے بعد سے ہی مسلسل ہو رہی ہیں، جن کا ظہور وقتاً فوقتاً پردے کے پیچھے سے بھی ہوتا رہا ہے۔ البتہ! ۲۰۱۴ کے بعد اِس طرح کے سانحات میں ناقابل یقین کی حد تک تیزی آگئی ہے اور پہلے جو شازسیں پردے کے پیچھے سے ہوا کرتی تھیں آج وہ اعلانیہ طور پر حکومت و قانون کی نگرانی میں انجام دی جارہی ہیں۔ چوں کہ پہلے قانون و آئین کا کچھ نہ کچھ خوف تھا اِس لیے تمام تر زعفرانی چالیں خاموشی کے ساتھ چلی جاتی تھیں، لیکن آج جب کہ زعفرانی مزاج طاقتوں کا قبضہ آئین پر ہوگیا ہے، تو اِس طرح غیر آئینی سانحات سر عام انجام دیے جارہے ہیں۔ اِس موقع پر بالخصوص صاحبان ِ اقتدار کے اُن نفرت آمیز بیانات کو دیکھا جائے کہ جن میں مسلمانوں اور دلتوں سے متعلق زہر اَفشانی کی جاتی ہے تو حالیہ عدلیہ سانحہ کا سارا راز خود بخود سامنے آجائےگا کہ راکیش کشور جیسےملک وسماج دشمن عناصر کہاں سے شہ پاتے ہیں۔
موجودہ عہد حکومت پر ایک اچٹتی سی نظر بھی ڈالی جائے تو اِس بات کے بہت سارے ثبوت مل جائیں گے کہ صاحبانِ اقتدار اور اُن کے ہمنواؤں نے یہ ٹھان لیا ہے کہ اب وہ کسی بھی قیمت پر جمہوری نظام اور سیکولرز م کو برادشت نہیں کریں گے۔ یہ اُسی کا نتیجہ ہے کہ آج سیاست سے لے کر معاشرت تک نفرت اور تعصب کی آندھیاںمنھ زور ہوگئی ہیں۔ آج حکومت کی زد پر ہر وہ افراد ہیں جو صاحبانِ اقتدار کے لیے چیلنج بن سکتے ہیں۔ حالاں کہ بظاہر یہ باتیں اکثریت کے ذہن ودماغ میں بٹھا دی گئی ہیں کہ بلڈوزر کے شکار صرف اقلیتی طبقات ہوتے ہیں اور اُنھیں کے رہائشی یا مذہبی مقامات زمیں بوس کیے جاتے ہیں۔ لیکن حقائق بتاتے ہیں کہ اقلیتوں کے ساتھ اکثریتی طبقہ کے اموال واسباب بھی حکومت کی زد پر ہیں۔ دہلی میں چلائے گئے بلڈوزر اِس کی تازہ مثال ہے۔ اِس سے قبل رام مندر کی تعمیر کے پردے میں جس قدر منادر اور اکثریت کے مکانات ودکان زمین دوز کیے گئے اُس کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے۔ کسانوں کے حقوق پر کس قدر غاصبانہ رویہ اختیار کیا گیا وہ بھی جگ ظاہر ہے۔ عمر خالد و دیگر مسلم جوانوں کے پردے میں بےحساب غیرمسلم افراد بھی مشق ستم بنے ہوئے ہیں۔ ایک غیرمسلم تاجر جس کے بچوں نے یاترا کے دوران راہل گاندھی کو اپنی جمع پونجی گلک کی شکل میں پیش کیا تو اُس تاجر باپ کو خود کشی کرنے پر مجبور کردیا گیا۔ جناب سنجیو بھٹ کو صرف اِس لیے قید وبند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں کہ اُنھوں نے صاحبانِ اقتدار کے جرائم سے پردہ اُٹھانے کی کوشش کی تھی۔ جسٹس لوئیا کی موت اِس لیے ہوگئی کہ اُنھوں نے مجرموں کو کیفردار تک پہنچانا چاہا۔ صدر جمہوریہ دھنکر نظر بند ہوگئے جب اُنھوں نے سچائی کا آئینہ اپنے ہاتھ میں لیا۔ سابق گورنر ستیہ پال ملک جیسے باہمت اور حق گو فرد بھی سیاست کی بھینٹ چڑھادیے گئے۔ گورکھپور میں ٹریننگ کے لیے آئیں لڑکیوں کے باتھ روم میں خفیہ کیمرہ لگتا ہے اور مدھیہ پردیش میں ایک درجن سے زائد بچے غلط دوائیں کھاتے ہیں اور سب کی جان چلی جاتی ہے، لیکن حکومت پر کچھ اثر نہیں ہوتا۔ سونم وانچک جو ہمیشہ ملک کے ساتھ کھڑا رہتا ہے اور ملک کا سر فخریہ اُونچا کیا کرت ہے لیکن جب وہ حکومت کو آئینہ دکھاتا ہے تو اُسے نہ صرف گرفتار کیا جاتا ہے بلکہ اُسے غدارِ وطن بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ آر ایس ایس کی شتابدی یادگار میں سکہ جاری کیا جاتا ہے، جس میں ’’ترنگا‘‘ نہیں ’’بھگوا‘‘ کندہ ہوتا ہے۔ اِس طرح کے غیرآئینی اُمور پردہ ڈالنے کی غرض سے ہی ہندو-مسلم دشمنی کا گیم پلان کیا جاتا ہے اور اُس کے شکار ناخواندہ اور پڑھے لکھے افراد یکساں طور پر ہوتے ہیں۔ اِس کی واضح مثال جوتا پھینکے جانے کا حالیہ سانحہ ہے جس کو اَنجام دینے والا کوئی جاہل نہیں بلکہ ایک سند یافتہ معمر و مجرب وکیل ہے۔
حد تو یہ ہے کہ سالیسٹر جنرل بھی غیر آئینی بیان بازی سے گریز نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ عمر خالد جیسے لوگوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ جیل ہی میں رہیں جب تک کہ اُن کا ٹرائل ختم نہیں ہوتا۔ اِس طرح کا بیان کسی بھی جمہوری اور سیکولر ملک کے لیے بےحد خطرناک ہے۔ ایک سابق جج کا ماننا ہے کہ یہ ایک سالیسٹر جنرل کا بیان کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا وہ دستورِ ہند سے واقف نہیں؟ ایسے سالیسٹر جنرل کی تو سرزنش ہونی چاہیے تھی، مگر عدلیہ کا کوئی ردّعمل نہیں آتا۔ بلکہ عدلیہ نے تو سالیسٹر جنرل کی تائید ہی کردی۔ یہ کسے نہیں پتا کہ اگر عدلیہ کو ضمانت ردّ کرنے کا اختیار ہے، تو ملزم کو بھی ضمانت کا بنیادی حق ہے، اگر اُس کا ٹرائل جلدی ختم نہیں کیا جاتا۔ کہاں گئے عدلیہ کے یہ اُصول اور یہ ضوابط؟ تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ جس کو پس زندان ہونا چاہیے آج وہ ہیرو بنتا دکھائی دے رہا۔ وزیر اعظم کا رویہ دیکھ کر بھی یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس کے ساتھ ہیں؟ عدالت عظمیٰ کے ساتھ یا پھر جوتا پھینکنے والے کے ساتھ؟ وزیر اعظم کے محبین جس انداز سے اپنی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اُس نے گاندھی جی کے قتل کی یاد ایک بار پھر سے تازہ کردی ہے۔
جمہوری نظام اور سیکولرزم کو کالعدم ماننےکا ثبوت اِس سے واضح اور کیا ہوسکتا ہے کہ ناقابل معافی جرم کے باوجود مبینہ وکیل پر نہ کوئی مقدمہ درج ہوتا ہے اور نہ ہی زندان بھیجا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی مسلم نے جوتے بازی کی ہوتی تو آج وہ نہ صرف سلاخوں کے پیچھے ہوتا، بہت ممکن تھا کہ بھری عدالت میں اُس کی لنچنگ کردی جاتی۔ بہرائچ و سنبھل اور فتح پور و بریلی کی مثال آج ملک کے سامنے ہے کہ مسلمانوں کے آئینی حقوق بھی چھین لے جاتے ہیں، اُن کے مکانات بھی بلڈوز کر دیے جاتے ہیں اور پھر اُنھیں کو زندان میں بھی ڈال دیا جاتا ہے۔ تقریباً یہی کچھ حالات ملک کے پسماندہ و دلت طبقات کے بھی ہیں اور اُن افراد کے بھی جو جمہوری نظام اور سیکولرزم میں یقین رکھتے ہیں۔
بہرحال بلا امتیازِ مذاہب و طبقات تمام باشندگان ِہند کو اِس پہلو پر اِنتہائی سنجیدگی سے غور وفکر کرنا ہوگا کہ آخر ہندوستان کی جمہوری شناخت اور سیکولرزم کی بحالی کو کیسے یقینی بنایا جائے۔ اگر ہم لوگوں نے اپنی عقل و خرد سے کام نہیں لیا، تو وہ دن دور نہیں کہ ہم اپنے ہی ملک اور اپنے ہی گھر میں اجنبی اور بیگانے ہوجائیں گے۔ یہ بھی خیال رہےکہ ہندوستان کی جمہوری شناخت اور سیکولرزم کی حفاظت کسی ایک قوم یا طبقہ کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ سبھی ملکی باشندوں پر لازم ہے کہ وہ اِتحاد و اتفاق کے ساتھ کوئی نہ کوئی موثر اور ٹھوس قدم اُٹھائیں۔ بصورت دیگر نہ جمہوری نظام محفوظ رہےگا اور نہ سیکولرزم۔ پھر ایک ایسی جماعت سے جمہوریت و سیکولرزم کی اُمید رکھنا جس کی اساس ہی جمہوریت و سیکولرزم کی نفی پرٹکی ہوئی ہے، اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ بلکہ جس طرح انگریزی حکومت نے رجواڑوں اور جاگیرداروں میں منافرت اور تقسیم کے ذریعے ہندوستان میں اپنی عمریں دراز کیں، ویسے ہی موجود ہ ہندوستان میں بھی ہوتا رہےگا۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

سیاسی بصیرت

ٹی ایم سی رائے گنج لوک سبھا الیکشن کیوں نہیں جیت پاتی؟

تحریر: محمد شہباز عالم مصباحی رائے گنج لوک سبھا حلقہ مغربی بنگال کی ایک اہم نشست ہے جس کی سیاسی
سیاسی بصیرت

مغربی بنگال میں کیا کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے؟

محمد شہباز عالم مصباحی سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال مغربی بنگال، جو ہندوستان کی سیاست میں