ٹرمپ نے وینیزویلا میں سی آئی اے کارروائی کی اجازت دی

امریکہ نے وینیزویلا میں سی آئی اے کارروائی کی اجازت دی، منشیات روکنے کا دعویٰ، مادورو نے اسے غیرقانونی مداخلت قرار دیا۔
واشنگٹن ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے خفیہ ادارے سی آئی اے کو وینیزویلا میں مخصوص کارروائیوں کی اجازت دے دی ہے۔ ان کے بقول، یہ اقدام منشیات کی اسمگلنگ اور ’’جرائم پیشہ گروہوں‘‘کے خلاف ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ تاہم اس اعلان کے بعد لاطینی امریکی ممالک میں تشویش اور مذمت کی لہر دوڑ گئی ہے۔گزشتہ چند ہفتوں میں کیریبین سمندر میں امریکی افواج نے منشیات کی اسمگلنگ کے شبے میں متعدد بحری جہازوں پر حملے کیے۔ ان کارروائیوں میں کم از کم ۲۷ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے ان واقعات کو “غیر قانونی ہلاکتیں” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی کارروائیاں بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں۔
ٹرمپ نے وہائٹ ہاؤس میں ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ وینیزویلا کی حکومت نے مبینہ طور پر اپنی جیلوں سے قیدیوں کو چھوڑ کر انہیں امریکہ بھیجا ہے۔ ان کے مطابق، “منشیات کی ایک بڑی مقدار وینیزویلا سے سمندر کے راستے امریکہ پہنچتی ہے، اور اب ہم زمینی راستوں کو بھی بند کرنے جا رہے ہیں۔”نیکولس مادورو، وینیزویلا کے صدر، نے ٹیلی ویژن خطاب میں امریکہ سے امن و مذاکرات کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ “ہم اپنے ملک میں کسی بیرونی مداخلت کو قبول نہیں کریں گے۔” مادورو نے دعویٰ کیا کہ امریکہ خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور وینیزویلا کے خودمختار معاملات میں مداخلت کر کے “ریجیم چینج” کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔لاطینی امریکہ کے دیگر رہنماؤں نے بھی امریکی اقدام پر شدید ردعمل دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی ملک کی خودمختاری کو اس طرح چیلنج کرنا علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر واقعی سی آئی اے کو اس نوعیت کی کارروائی کی اجازت دی گئی ہے تو یہ بین الاقوامی قانون، خاص طور پر اقوام متحدہ کے منشور، کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔
ادھر واشنگٹن میں سی آئی اے اور پینٹاگون کے حکام نے اس معاملے پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا، لیکن سیاسی مبصرین کے مطابق، یہ پیش رفت امریکی خارجہ پالیسی کے ایک نئے جارحانہ دور کی علامت ہو سکتی ہے ۔ ایسا دور جو سفارت کاری کے بجائے خفیہ کارروائیوں پر انحصار کرتا نظر آ رہا ہے۔