سیاسی بصیرت

چیف جسٹس پر جوتا پھینکنے کے پیچھے کون ؟

روش کمار

سارے ملک میں اگرچہ عوام بے شمار مسائل کا سامنا کر رہے ہیں لیکن عوام کی توجہ اصل اور سلگتے مسائل سے ہٹانے کیلئے انہیں جان بوجھ کر غیر ضروری چیزوں میں الجھایا جارہا ہے ۔ فی الوقت چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس بی آر گوائی پر جوتا پھینکنے کا واقعہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ جسٹس بی آر گوائی کی طرف جوتا پھینکا گیا ہے ۔ بھری عدالت میں ایک وکیل نے بنچ کی طرف ان کی جانب جوتا پھینکا۔ عدالت نے جوتا پھینکنے والے وکیل راکیش کشور کے خلاف مقدمہ درج کروانے سے انکار کردیا ہے اور پولیس نے شرافت کا غیر معمولی مظاہرہ کرتے ہوئے جوتا واپس کردیا ہے ۔ جس سناتن کے نام پر جس کے سہارے چیف جسٹس پر جوتا پھینکا گیا، اسے واپس کردیا گیا ۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ کونسا حق ہے جس کے تحت کوئی وکیل چیف جسٹس آف انڈیا پر جوتا پھینک دیتا ہے ۔ بات جوتے کی تھی بھی نہیں بات اس حق استحقاق اور تکبر کی ہے جس کے تحت کوئی وکیل سناتن کی توہین کے نام پر چیف جسٹس کی طرف جوتا پھینکتا ہے اور جوتا پھینکنے کے بعد اس پہچان کا اعلان بھی کرتا ہے ۔ سیکوریٹی عملہ کی جانب سے کمرہ عدالت سے باہر لے جائے جانے کے دوران وکیل راکیش کشور نے نعرے لگائے کہ ہندوستان سناتن کی توہین برداشت نہیں کرے گا ۔ اگر اس طرح کوئی دوسرا ہوتا جو سناتن کی جگہ کسی اور چیز کے نام پر جوتے پھینکتا تو آپ دعویٰ کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ اس کے ساتھ بھی وہی سلوک روا رکھا جاتا۔
بات اس فکری حق استحقاق کی ہے جو جوتا پھینکنے سے پہلے چیف جسٹس بی آر گوائی کے بارے میں سوشیل میڈیا میں عجیب و غریب اور بے تکی باتیں کرنے لگ جاتا ہے اور کہنے والے کون لوگ ہیں، اسے اقتدار کے گلیاروں میں اچھی طرح پہچانا جاتا ہے لیکن ان کے خلاف سب نے خاموشی اختیار کرلی ہے ۔ اس لئے سپریم کورٹ میں جوتے کی نہیں اس حق استحقاق کی جیت ہوئی جو سوشیل میڈیا میں چیف جسٹس کو طرح طرح سے دھمکیاں دیتا ہے ۔ ان کے خلاف ناشائستہ لفظوں کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ نفرت پیدا کی جاتی ہے ۔ اس معاملہ میں جسٹس بی آر گوائی خود کچھ نہیں کہہ سکتے تھے لیکن ان کے ساتھی ججس اور سابق ججس کو بولنا چاہئے کہ چیف جسٹس کے بارے میں نجی طور پر توہین آمیز باتیں نہ کہی جائیں، ان کی دلت پہچان کو لے کر انہیں تنقیدوں کا نشانہ نہ بنایا جائے ۔ جوتا پھینکنے کے بعد میڈیا میں رپورٹ ہوا کہ چیف جسٹس حملہ سے گھبرائے نہیں ، انہوں نے کہا کہ اس طرح کی حرکت سے پریشان نہیں ہیں ۔ مجھے ان چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، یہ ان کا تبصرہ شائع ہوا ہے ۔ اچھی بات ہے کہ انہیں فرق نہیں پڑا لیکن جن لوگوں نے ان کے تبصرہ کو لے کر سوشیل میڈیا میں توہین آمیز تبصرے کئے اس سے فرق نہیں پڑتا یہ الگ بات ہے ، اسے نظر انداز کرنا بالکل دوسری بات ہے اور سنگین بات ہے ۔ آپ اسے کسی طرح بھی نطر انداز نہیں کرسکتے کہ کوئی بھی چیف جسٹس کے دلت ہونے کو لے کر ان کے بارے میں اس طرح سے توہین اور نفرت آمیز تبصرے کرے۔ چیف جسٹس بی آر گوائی ہندوستان کے دوسرے دلت اور پہلے بدھ چیف جسٹس ہیں۔ اگر چیف جسٹس چپ ہیں تو دوسرے ججس کو آگے آکر اس کی مذمت کرنی چاہئے تھی ۔ چیف جسٹس کے عہدہ کا حلف لینے کے بعد جب چیف جسٹس بی آر گوائی کمرہ عدالت میں آئے تب انہوں نے جئے بھیم سے وکیلوں کا خیرمقدم کیا ۔ جئے بھیم ذات کی سوچ کو ظاہر کرتی ہے۔ جئے بھیم ایک دستوری نعرہ ہے جس کی دفعات میں ذات پات کی بنیاد پر کسی بھی طرح امتیازی سلوک یا بھید بھاؤ کو جرم مانا گیا ہے ۔ جوتا پھینکنے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں، اس کے بہت پہلے سے چیف جسٹس کے خلاف میڈیا میں لوگ باقاعدہ ویڈیو بناکر کچھ بھی بولے جارہے تھے ، وہ سارے بیان آج بھی موجود ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی اس لئے بھی نہیں ہوگی کیونکہ وہ اقتدار پر فائز لوگوں کے قریب ہیں اس لئے عدالت کے استحقاق کو ایسے ہی دیکھا جاسکتا ہے ۔ کچھ لوگ دیکھ سکتے ہیں کہ جوتا پھینکنے کا تعلق ایک خاص فکر اور نظریہ سے ہے اور اس کا تعلق اقتدار سے ہے اس لئے استحقاق اور سکون کا مظاہرہ کیا گیا ہے ۔ یہ واقعہ ہے جو بتارہا ہے کہ مذہب کی سیاست کو اہمیت اور بنیادی حق کا درجہ حاصل ہوسکا ہے ۔ اب وہ طئے کرے گی کہ عزت کیا ہے توہین کیا ہے اور دستور کیا ہے ۔ اس سیاست نے عدالت کے کچھ فیصلوں کو اپنے لئے ہمیشہ جھوٹ کی طرح دیکھا۔ عدالت کے فیصلوں کو اپنی طاقت کے آگے جھکتے ہوئے دیکھا۔ اس سے یہ سیاست فائدہ ا ٹھاتی رہی اور اب یہی سیاست ایک طرح سے عدالت کو یاد دلارہی ہے کہ کس کا مقام کہاں ہے اسے ٹھیک سے سمجھ لیا جانا چاہئے ۔ یہ وہ موقع تھا عدالت سماج کی سوچ کو بدلنے کی سمت پہل کرسکتا تھا اور یہ تب ہی ہوتا ہے جب عدالت ایک آواز میں اس واقعہ کے پیچھے کارفرما سوچ و فکر کی مذمت کرتی ۔ سناتن کے نام پر راکیش کشور نے آج جو چھوٹ حاصل کی ہے اس چھوٹ کے اثر میں سڑک پر ان جیسے لوگوں کا حوصلہ بڑھ سکتا ہے ۔ اس کی لپیٹ میں آنے سے کیا ہوگا ، ہم اس کا اثر دیکھ چکے ہیں ۔ یہ وہی سیاست اور حق استحقاق ہے جو چلتی ٹرین میں ایک سپاہی سے تین مسلمانوں کا گولی مارکر قتل کروادیتی ہے اور بیج سڑک پر جئے شری رام کا نعرہ لگاکر کسی کو پیٹ پیٹ کر قتل کردیتی ہے ۔ کم سے کم اس واقعہ کی پر زور مذمت ہونی چاہئے تھی ۔ عدالت کی یہ نرمی راکیش کشور کو ناٹک بنارہی ہے ۔ کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے لکھا ہے کہ چیف جسٹس پر حملہ کی کوشش افسوسناک اور شرمناک ہے ۔ یہ عدلیہ کی عزت اور قانون کی حکمرانی پر راست حملہ ہے ، جب اپنی دیانتداری قابلیت اور فرض شناسی کے بل پر ملک کے چیف جسٹس کے عہدہ تک پہنچے چیف جسٹس کو اس طرح نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ ایک سنگین اشارہ دیتا ہے یا ایسے فرد کو ڈرانے اور ان کی توہین کرنے کی کوشش ہے جنہوں نے دستور کے تحفظ کیلئے سماجی رکاوٹوں کو توڑا ہے ۔ یہ واقعہ دکھاتا ہے کہ پچھلے ایک دہے میں کس طرح فرقہ پرستی ، مذہبی کٹرپسندی اور مذہبی جنون نے ہمارے معاشرہ کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے ۔ ملکارجن کھرگے نے حملہ کی شدید سے شدید تر الفاظ میں مذمت کی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری عدلیہ اور چیف جسٹس آف انڈیا کا تحفظ ضروری ہے ۔ خوف اور تشدد نہیں بلکہ انصاف اور سچائی کی جیت ہو۔ کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا پر ہوئے حملہ کی مذمت کیلئے الفاظ نہیں ہیں۔ یہ صرف بی آر گوائی پر حملہ نہیں ہے بلکہ ہمارے دستور پر بھی ہے ۔ چیف جسٹس نے تو نرمی اور رحمدلی کا مظاہرہ کیا لیکن ملک کو ان کے ساتھ متحد ہوکر کھڑا ہونا چاہئے ۔ ہم تمام کو اس واقعہ سے تکلیف ہوئی ہے اور اسے لے کر فکرمند ہیں۔ کیرالا اور ٹاملناڈو کے وزرائے اعلیٰ نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی ہے ۔ چیف منسٹر ٹاملناڈو ایم کے اسٹالن نے کہا ہے کہ اس واقعہ کی شدید مذمت کی جانی چاہئے۔ جس نرم انداز میں چیف جسٹس نے جواب دیا ہے وہ اس ادارہ کے وقار کو بڑھاتا ہے لیکن ہم اس واقعہ کو ہلکے میں نہیں لے سکتے ۔ حملہ کرنے والے نے جو وجوہات بتائیں ہیں وہ ہمارے سماج میں گہرائی تک پیوست ہیں اور جس کا تعلق ذات پات پر مبنی سوچ سے ہے ۔ کیرالا کے چیف منسٹر پینا رائے وجین نے کہا کہ اس واقعہ پر کارروائی نہیں کرنا موجودہ دور میں بڑ ھتی انتہا پسندی کو نظر انداز کرنا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کٹر مذہب پسندی ملک کے چیف جسٹس پر حملہ کرنے کی ہمت کرنے لگے تو اس کی سازش اور زہریلے خطرات واضح ہوجاتے ہیں۔ ان کا سامنا بنا کسی جھجک کے کیا جانا چاہئے ۔ سپریم کورٹ کے ممتاز وکیل کپل سبل نے ایک ٹوئیٹ کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ چیف جسٹس پر سپریم کورٹ بار کونسل کے رکن کے اس نازیبا حملہ کی بھرپور مذمت کی جانی چاہئے ۔ اس واقعہ پر وزیراعظم ، وزیر داخلہ اور وزیر قانون کی خاموشی حیران کرتی ہے ( یہ اور بات ہے کہ وزیراعظم نے چیف جسٹس کو فون کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا ہے )۔ سپریم کورٹ بار کونسل کے صدر نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے ۔ اس نے کہا ہے کہ یہ جو واقعہ ہوا ہے اس کا تعلق چیف جسٹس کے اس تبصرہ سے ہے جو انہوں نے کھجوراہو کے مقدمہ میں سماعت کے دوران کیا تھا ۔ انہوں نے صاف صاف کہا بھی کہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں ۔ ایسے واقعات سے قانون اور عدلیہ پر لوگوں کا بھروسہ کم ہوتا ہے ۔
بہار میں 80 لاکھ رائے دہندے غائب : بہار میں انتخابات کا اعلان ہوگیا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ایس آئی آر کی فہرست بن جانے کے بعد سارے سوال ختم ہوچکے ہیں بلکہ کئی سوال تو نئے سرے سے اٹھ رہے ہیں جس کے جواب نہیں دیئے جارہے ہیں اور جواب دیئے بنا ان سوالوں کو ختم شد مان لیا جارہا ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر ایس آئی آر کا جشن منارہے ہیں ۔ اپنی کامیابی بتارہے ہیں اور بہار کے ایس آئی آر کو ملک کیلئے ایک مثال کہہ رہے ہیں۔ ان سوالوں کا کیا جو عدالت کے سامنے ہیں اور جو قطعی فہرست جاری کی گئی ہے ۔ اسے لے کر اٹھائے جارہے ہیں ۔ چیف الیکشن کمشنر کی پریس کانفرنس میں SIR کے بارے میں سن کر لگا جیسے کوئی مقابلہ ہورہا ہو جس میں تعریفوں کے پل باندھے جارہے ہیں لیکن ہم نے کچھ رپورٹس کے سہارے آپ کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ابھی بھی SIR کو لے کر بہت سارے سوال اٹھ رہے ہیں ۔ یوگیندر یادو کا کہنا ہے کہ بہار کی آبادی کے مطابق ووٹروں کی تعداد کم سے کم 8.22 کروڑ ہونی چاہئے لیکن SIR کے قطعی فہرست میں 80 لاکھ رائے دہندے کم ہیں ۔ یہ ایسا سوال ہے جس کا کوئی ٹھوس جواب نہیں مل رہا ہے ۔ 80 لاکھ ووٹرس کہاں چلے گئے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

سیاسی بصیرت

ٹی ایم سی رائے گنج لوک سبھا الیکشن کیوں نہیں جیت پاتی؟

تحریر: محمد شہباز عالم مصباحی رائے گنج لوک سبھا حلقہ مغربی بنگال کی ایک اہم نشست ہے جس کی سیاسی
سیاسی بصیرت

مغربی بنگال میں کیا کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے؟

محمد شہباز عالم مصباحی سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال مغربی بنگال، جو ہندوستان کی سیاست میں