اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی و قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ

اسرائیل اور حماس نے غزہ میں جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے اور انسانی امداد کی فراہمی پر تاریخی معاہدہ کر لیا، فوری نفاذ شروع۔
غزہ میں جاری طویل اور خونی جنگ کے خاتمے کے لیے ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ اسرائیلی حکومت نے جمعہ کی صبح اعلان کیا کہ اس نے حماس کے ساتھ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی باضابطہ منظوری دے دی ہے۔ یہ فیصلہ اُس وقت سامنے آیا جب جمعرات کو حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے معاہدے پر اپنی تنظیم کی رضامندی کا اعلان کیا تھا۔ اسرائیلی وزیرِاعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق، کابینہ کے بیشتر ارکان نے معاہدے کے حق میں ووٹ دیا، تاہم پانچ وزرا جن میں وزیرِ قومی سلامتی ایتامار بن گویر اور وزیرِ خزانہ بیزلیل سموٹریچ شامل ہیں نے اس کی مخالفت کی۔اس معاہدے کے تحت تمام فوجی کارروائیاں فوری طور پر معطل کر دی گئی ہیں اور اسرائیل کی منظوری کے فوراً بعد جنگ بندی نافذ العمل ہو گئی ہے۔ معاہدے میں طے پایا ہے کہ انسانی امداد کی فراہمی کا عمل فوراً شروع کیا جائے گا اور یہ سلسلہ ۱۹ جنوری ۲۰۲۶ء تک جاری رہے گا۔ امداد کی ترسیل بین الاقوامی انسانی فریم ورک کے تحت کی جائے گی تاکہ متاثرہ آبادی تک بروقت امداد پہنچ سکے۔
دستاویز کے مطابق، اسرائیلی افواج متعین شدہ علاقے جسے “یلو لائن” کہا جا رہا ہے — سے پیچھے ہٹ جائیں گی۔ یہ وہی حد ہے جسے سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ۴ اکتوبر کو جاری کردہ ایک نقشے میں نمایاں کیا تھا۔ ابتدائی انخلا انہی زونز میں ہوگا، اور جب تک حماس معاہدے کی شرائط پر مکمل عمل درآمد کرتی رہے گی، اسرائیل ان علاقوں میں دوبارہ داخل نہیں ہوگا۔
یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کی تفصیلات
معاہدے کے مطابق، اسرائیلی افواج کے انخلا کے ۷۲ گھنٹے بعد غزہ میں موجود تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے گی۔ حماس ان اسرائیلی شہریوں کی ہلاکتوں سے متعلق معلومات ایک مشترکہ بین الاقوامی میکانزم کے ذریعے فراہم کرے گی، جس میں قطر، مصر، ترکی اور بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی شامل ہوں گی۔ اسی دوران، اسرائیل تقریباً ۲ ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، جن میں اکثریت خواتین اور کم عمر افراد کی ہوگی۔ یہ تبادلہ میڈیا کی موجودگی کے بغیر خفیہ طور پر کیا جائے گا تاکہ کسی بھی فریق پر داخلی یا خارجی دباؤ نہ پڑے۔رپورٹس کے مطابق، اس وقت غزہ میں ۴۸ اسرائیلی یرغمالی موجود ہیں جن میں سے ۲۰ زندہ ہیں، جبکہ اسرائیلی جیلوں میں ۱۱ ہزار سے زائد فلسطینی قیدی قید ہیں۔ دونوں فریقوں کے درمیان یہ تبادلہ جنگ کے خاتمے کے بعد امن کے قیام کی ایک بڑی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
نفاذ کی نگرانی کیلئے بین الاقوامی ٹاسک فورس
معاہدے کے مطابق اس کے عملی نفاذ اور نگرانی کے لیے ایک مشترکہ ٹاسک فورس تشکیل دی جائے گی جس میں امریکہ، قطر، مصر، ترکی اور دیگر علاقائی ممالک کے نمائندے شامل ہوں گے۔ یہ فورس جنگ بندی کی نگرانی، معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد اور دونوں فریقوں کے درمیان رابطے کے تسلسل کو یقینی بنائے گی۔تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ معاہدہ خطے میں امن کی بحالی کی سمت ایک اہم قدم ہے۔ اگر فریقین نے طے شدہ شرائط پر عمل درآمد جاری رکھا تو نہ صرف انسانی بحران میں کمی آئے گی بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کی بنیاد بھی رکھی جا سکتی ہے۔