کیا اسرائیل واقعی غزہ میں جنگ ختم کرنے کے لیے تیار ہے؟

امریکہ نے غزہ امن منصوبہ پیش کیا، اسرائیل نے الٹی میٹم دیا، حماس تذبذب میں، ہزاروں فلسطینی بے گھر، درجنوں ہلاک۔
یہ سوال اس وقت زیادہ اہم ہو گیا ہے کیونکہ ایک طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ مشاورت کے بعد ایک 20 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا ہے، جس میں فلسطینیوں کو غزہ میں پرامن زندگی گزارنے کی ضمانت دینے کی بات کی گئی ہے۔ لیکن دوسری طرف اسرائیل کی جانب سے سخت اقدامات سامنے آ رہے ہیں جنہوں نے اس منصوبے پر شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔اسرائیل کے وزیرِ دفاع اسرائیل کاٹز نے یکم اکتوبر کو ایک بیان میں غزہ کے شہریوں کو وارننگ دی کہ وہ شہر کو خالی کر دیں، ورنہ جو بھی وہاں رکا، اسے “دہشت گرد” یا “انتہا پسندوں کا حامی” تصور کیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ان کے لیے “آخری موقع” ہے، اس کے بعد اسرائیلی فوج پوری طاقت سے کارروائی کرے گی۔ یہ دھمکی انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری کی۔
دوسری جانب مقامی اسپتالوں والوں نے بتایا ہے کہ گزشتہ روز اسرائیلی حملوں میں کم از کم 21 فلسطینی ہلاک ہوئے۔ رپورٹس کے مطابق اسرائیل کے تازہ حملے شروع ہونے کے بعد پچھلے ایک ماہ میں تقریباً چار لاکھ لوگ غزہ شہر سے نکلنے پر مجبور ہوئے ہیں، لیکن اب بھی لاکھوں افراد باقی ہیں جو یا تو نقل مکانی کے خطرات مول نہیں لے سکتے یا پھر اتنے کمزور ہیں کہ جنوبی غزہ کے خیمہ بستیوں تک پہنچنے کی سکت نہیں رکھتے۔یعنی ہر طرف خوف کا ماحول ہے۔
ادھر امریکی صدر کے امن منصوبے پر حماس نے باضابطہ ردعمل نہیں دیا۔ حماس کے ایک سینیئر رہنما نے کہا ہے کہ منصوبے کے کچھ نکات ناقابلِ قبول ہیں اور ان پر ترمیم ضروری ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ سرکاری مؤقف فلسطینی دھڑوں سے مشاورت کے بعد ہی سامنے لایا جائے گا۔یوں، ایک طرف امن منصوبہ پیش کیا جا رہا ہے، تو دوسری جانب سخت الٹی میٹم اور حملے جاری ہیں۔ یہی تضاد اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ کیا واقعی اسرائیل جنگ ختم کرنے پر تیار ہے یا نہیں۔