اسرائیلی بحریہ نے غزہ جانے والی کشتیوں کو روک کر کارکن گرفتار کیے

اسرائیلی بحریہ نے غزہ جانے والی امدادی کشتیوں کو روک کر گریٹا تھنبرگ سمیت کارکن حراست میں لیے، جی ایس ایف نے کارروائی غیر قانونی کہا۔
اسرائیلی بحریہ نے غزہ کے لیے امدادی سامان لے جانے والی کشتیوں کو روک لیا اور ان پر موجود بین الاقوامی کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔ ان کارکنوں میں عالمی شہرت یافتہ ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی شامل تھیں۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ کشتیوں کو “محفوظ انداز میں روکا گیا” اور ان میں سوار تمام افراد کو اسرائیل کے ایک ساحلی بندرگاہ پر منتقل کیا جا رہا ہے۔اسرائیل کا مؤقف ہے کہ ان کشتیوں کو اپنا راستہ بدلنے کے لیے کہا گیا تھا کیونکہ وہ ایک ایسے علاقے کی طرف بڑھ رہی تھیں جسے “جنگی زون” قرار دیا گیا ہے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق، غزہ کی طرف جانے والے اس فلوٹیلا کو کئی مرتبہ متنبہ کیا گیا تھا کہ وہ اس “قانونی بحری ناکہ بندی” کی خلاف ورزی نہ کریں، لیکن کارکنوں نے اس ہدایت کو نظر انداز کیا۔
دوسری جانب، فلوٹیلا منعقد کرنے والی تنظیم “گلوبل سُمود فلوٹیلا” (جی ایس ایف) نے اسرائیلی کارروائی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جی ایس ایف کے مطابق، یہ کارروائی “غیر قانونی” ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل دفاع نہیں بلکہ “مایوسی اور کمزوری” کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ تنظیم نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ اسرائیلی بحریہ نے جان بوجھ کر ان کی ایک کشتی کو ٹکر ماری اور بعض کشتیوں پر پانی کی تیز بوچھاڑ کی گئی تاکہ انہیں روکنے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔جی ایس ایف کے بقول، یہ طرزِ عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل غزہ کی ناکہ بندی کو ہر حال میں برقرار رکھنے کے لیے “کسی بھی حد تک جا سکتا ہے”۔ یاد رہے کہ غزہ کی ناکہ بندی برسوں سے ایک متنازع مسئلہ ہے جس پر عالمی سطح پر انسانی حقوق کی تنظیمیں سوالات اٹھاتی رہی ہیں۔
فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ آیا کشتیوں نے واقعی ممنوعہ علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی یا نہیں۔ تاہم، اس واقعے نے ایک مرتبہ پھر غزہ کی صورتحال اور اسرائیل کی پالیسیوں کو عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔