شلپی گوتم قتل کیس: 3 جولائی 1999 کی المناک واردات

شلپی گوتم قتل کیس 1999، اغوا، زیادتی، قتل، سی بی آئی تحقیقات، سمراٹ چودھری نامزد، انصاف ابھی تک نہ ملا۔
3 جولائی 1999 کو پٹنہ کے فریزر روڈ علاقے میں ایک کار کے اندر دو لاشیں نیم برہنہ حالت میں ملیں۔ دونوں افراد 2 جولائی سے لاپتہ تھے۔ لاشیں ملنے کی خبر نے پورے علاقے میں ہلچل مچا دی۔ لیکن اس سے پہلے کہ پولیس جائے وقوعہ پر پہنچتی، کچھ مقامی کارکن اور ایک رکن اسمبلی کے حامی وہاں پہنچ گئے اور ہنگامہ شروع کر دیا۔ الزام ہے کہ انہوں نے جائے وقوعہ سے اہم شواہد کو مٹانے کی کوشش کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کار میں لاشیں پائی گئیں، اسے کھینچنے (ٹوہ کرنے) کے بجائے ایک کانسٹیبل نے خود چلایا۔ اس کار میں پائی جانے والی لاشیں شلپی جین اور گوتم سنگھ کی تھیں۔حال ہی میں سیاسی مشیر پرشانت کیشور نے پریس کانفرنس میں کہا کہ شلپی اورگوتم قتل کیس میں اس وقت کے نائب وزیر اعلیٰ سمراٹ چودھری کا نام بھی سامنے آیا تھا اور سی بی آئی نے ان سے پوچھ گچھ کی تھی۔ کیشور کے مطابق سمراٹ چودھری اس قتل کے نامزد ملزم تھے۔ تاہم سمراٹ چودھری نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ جس رکیش کمار کا نام اس کیس میں آیا، وہ ایک آئس کریم بیچنے والا تھا۔
شلپی جین پٹنہ ویمنز کالج کی طالبہ تھیں اور ماڈلنگ میں دلچسپی رکھتی تھیں، انہیں “مس پٹنہ” کا خطاب بھی حاصل تھا۔ گوتم ایک این آر آئی ڈاکٹر کے بیٹے تھے اور سیاست میں دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ سادھو یادو کے قریبی ساتھی تھے اور توقع رکھتے تھے کہ سادھو یادو انہیں سیاسی ٹکٹ دلائیں گے، مگر بعد میں سادھو یادو ہی گوتم کی ہلاکت کے الزام میں شامل ہو گئے۔2جولائی 1999 کو جب شلپی کمپیوٹر کلاس جا رہی تھیں، تب انہیں راستے سے اغوا کر لیا گیا۔ اغوا کرنے والوں نے بتایا کہ گوتم ایک گیسٹ ہاؤس میں ان کا انتظار کر رہا ہے، لیکن وہاں گوتم موجود نہیں تھا۔ گوتم کو جب یہ خبر ملی تو وہ گیسٹ ہاؤس پہنچے، جہاں ملزمان نے شلپی کے ساتھ زیادتی کی اور گوتم کے ساتھ مارپیٹ کی۔ بعد میں دونوں کی لاشیں ماروتی کار میں رکھ دی گئیں۔ شلپی نے گوتم کی ٹی شرٹ پہن رکھی تھی اور گوتم نے صرف پینٹ۔
ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا کہ شلپی کے ساتھ کئی افراد نے زیادتی کی تھی جبکہ گوتم کے جسم پر زخموں کے نشان موجود تھے، جس سے قتل کا شبہ ظاہر ہوا۔ ابتدا میں اس واقعے کو خودکشی بتایا گیا، لیکن شلپی کے خاندان نے چھ دن بعد اسے قتل قرار دیا۔ بعد میں کیس کی تحقیقات سی بی آئی کے سپرد کی گئیں، جنہوں نے سادھو یادو سے ڈی این اے سیمپل مانگا، لیکن انہوں نے کبھی فراہم نہیں کیا۔ 2003 میں سی بی آئی نے اسے خودکشی قرار دے کر کلوزر رپورٹ فائل کی۔شلپی کے خاندان کو آج تک انصاف نہیں ملا۔ 2006 میں شلپی کے بھائی پرشانت جین نے کیس دوبارہ کھلوانے کی کوشش کی، مگر ان کا اغوا ہو گیا۔ اس کے بعد خاندان نے کوششیں روک دی۔ ہر انتخابات میں اس واقعے کو سیاسی استعمال کے طور پر سامنے لایا جاتا رہا، اور حال ہی میں پرشانت کیشور نے اس کیس میں سمراٹ چودھری کا نام سامنے لایا ہے۔