سیاسی انتقام کے شکار اعظم خان آخرکار جیت کی طرف گامزن

اعظم خان سیاسی انتقام کا شکار ہوئے، سو مقدمات جھیلے، خاندان نشانہ بنا مگر بالآخر عدالتوں میں جیت اور بری ملی۔
سماج وادی پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر اعظم خان تقریباً 23 ماہ کی طویل قید کے بعد سیتا پور جیل سے رہا ہو رہے ہیں۔ اُن پر 100 سے زائد مقدمات قائم کیے گئے، جن میں زمین پر قبضے سے لے کر بکری چوری جیسے غیرمعمولی الزامات تک شامل ہیں۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ تمام کارروائیاں اُنھیں سیاسی طور پر کمزور کرنے اور اُن کی عوامی مقبولیت کو توڑنے کے لیے کی گئیں۔اعظم خان کی مشکلات کا آغاز اُس وقت ہوا جب 2017 میں اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ اس کے بعد ان کے خلاف مقدمات کی جھڑی لگ گئی۔ محمد علی جاؤہر یونیورسٹی کے قیام کے دوران کسانوں کی زمین ہتھیانے کا الزام، دشمن جائیداد پر قبضے کا کیس، ڈونگرپور میں غریبوں کے مکانات گرانے کا معاملہ، جعلی پیدائشی سرٹیفکیٹ اور دیگر الزامات—یہ سب سیاسی انتقام کی کڑیوں کے طور پر دیکھے گئے۔
اعظم خان کو ان الزامات پر ایک کے بعد ایک مقدمے میں گھسیٹا گیا۔ اُن کی اہلیہ اور بیٹوں کو بھی نہیں بخشا گیا، گویا پورے خاندان کو نشانہ بنایا گیا۔ بڑے بیٹے پر بیس سے زائد اور چھوٹے بیٹے عبداللہ پر چالیس کے قریب کیس درج کیے گئے۔ اہلیہ پر بھی تیس مقدمات ڈال دیے گئے۔ صرف رامپور میں ہی اعظم خان پر 93 مقدمات قائم ہوئے۔لیکن ان سب رکاوٹوں اور دباؤ کے باوجود اعظم خان نے ہمت نہیں ہاری۔ عدالتوں میں وہ ہر الزام کا قانونی جواب دیتے رہے۔ کئی مقدمات میں ضمانت ملی، کچھ میں وہ بری ہوئے۔یہ فیصلے اُن کے اس مؤقف کو مضبوط کرتے ہیں کہ اُن پر لگائے گئے الزامات سیاسی دشمنی کا شاخسانہ ہیں۔
اعظم خان کے حامی کہتے ہیں کہ اُنہیں صرف اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ حکومت پر سخت تنقید کرتے تھے اور اپنے بیباک بیانات سے مخالفین کو للکارتے تھے۔ ان کی اسمبلی رکنیت بھی ایک متنازع ہٹ اسپیچ کیس میں ختم کی گئی، جسے اُن کے چاہنے والے انصاف کے بجائے انتقام کی کارروائی قرار دیتے ہیں۔اب جب وہ جیل سے رہا ہو رہے ہیں تو اُن کے چاہنے والے اسے اُن کی جیت تصور کر رہے ہیں۔ اُنہیں یقین ہے کہ اعظم خان اپنی سیاسی زندگی کے اس مشکل دور سے سرخرو ہو کر نکلیں گے اور تاریخ انھیں ایک ایسے رہنما کے طور پر یاد رکھے گی جسے سیاسی دشمنی کے باوجود عوامی حمایت نے ہمیشہ مضبوط رکھا۔