یوکرین میں جنگ بندی کے بعد 26 ممالک کی فوجی حمایت

جنگ بندی کے بعد یوکرین میں مغربی ممالک افواج بھیجنے پر تیار، روس مخالفت میں سخت، امریکہ فضائی تعاون کا عندیہ دے چکا۔
فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا ہے کہ مغربی دنیا کے 26 ممالک اس بات پر آمادہ ہیں کہ یوکرین میں جنگ بندی کے فوراً بعد اپنی افواج تعینات کریں گے۔ ان کے بقول، یہ افواج زمین، سمندر یا فضائی راستوں سے یوکرین میں داخل کی جا سکتی ہیں تاکہ جنگ کے بعد وہاں سلامتی اور استحکام قائم رکھا جا سکے۔پیرس میں 35 ممالک کے نمائندوں کی ایک اعلیٰ سطحی ملاقات کے بعد میکرون نے میڈیا کو بتایا کہ روس جان بوجھ کر مذاکرات میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ یوکرینی علاقوں پر قبضہ کرسکے۔ انھوں نے واضح کیا کہ مغربی اتحادیوں کو متحد ہو کر یوکرین کے دفاع کو یقینی بنانا ہوگا۔
یاد رہے کہ پچھلے ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کی الاسکا میں ملاقات کے بعد یوکرین اور روس کے درمیان کسی بڑی امن کانفرنس کی امیدیں مدھم ہوگئی تھیں۔ میکرون نے کہا کہ اگرچہ امریکہ نے باضابطہ اعلان نہیں کیا لیکن جلد ہی واشنگٹن کی حمایت ملنے کا امکان ہے۔یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے بھی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر نے کئی یورپی ممالک پر تنقید کی ہے جو اب تک روسی تیل اور گیس پر انحصار کر رہے ہیں۔ یورپی یونین نے یہ ہدف طے کر رکھا ہے کہ 2027 کے اختتام تک روسی توانائی پر مکمل انحصار ختم کر دیا جائے گا، مگر ہنگری اور سلوواکیہ جیسے ممالک اب بھی بڑے خریدار ہیں اور ان کے روس سے قریبی تعلقات سمجھے جاتے ہیں۔
اگرچہ باضابطہ طور پر زیادہ ممالک نے یہ وعدہ نہیں کیا کہ وہ یوکرین میں براہ راست فوجی بھیجیں گے، لیکن میکرون کا دعویٰ ہے کہ موجودہ صورتحال میں مغربی اتحاد کا عزم غیر متزلزل ہے۔ امریکہ نے فی الحال زمینی فوج بھیجنے سے انکار کیا ہے، تاہم صدر ٹرمپ نے اشارہ دیا ہے کہ واشنگٹن ہوائی مدد فراہم کر سکتا ہے۔دوسری طرف روس نے خبردار کیا ہے کہ کسی بھی مغربی فوج کو یوکرین میں داخل نہ کیا جائے اور مطالبہ کیا ہے کہ اگر کوئی امن معاہدہ طے پاتا ہے تو روس بھی ضمانتی ممالک میں شامل ہو۔ مگر یوکرین اور اس کے حامی ملک اس تجویز کو پہلے ہی رد کر چکے ہیں۔فرانسیسی صدر نے پُر اعتماد لہجے میں کہا کہ انہیں یقین ہے کہ امریکہ بالآخر یوکرین کی سلامتی کے نظام کا حصہ بنے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ نہ صرف یوکرین بلکہ پورے یورپ کی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔