بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف، تعلقات میں تناؤ کی نئی لہر

ٹرمپ نے بھارتی مصنوعات پر 50٪ ٹیرف عائد کیا، روسی تیل خریداری پر سزا، برآمدات متاثر، تعلقات میں تناؤ، بھارت متبادل منڈیاں تلاش کررہاہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بالآخر اپنی ضد پوری کر دی اور 27 اگست سے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف نافذ کر دیا ہے۔ اس سے پہلے بھارت سے آنے والے سامان پر 25 فیصد ٹیرف عائد تھا، مگر اب روسی تیل کی خریداری پر نئی دہلی کو سزا دینے کے طور پر مزید 25 فیصد کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس فیصلے نے دنیا کی دو سب سے بڑی جمہوریتوں اور قریبی شراکت داروں کے درمیان کشیدگی کو بڑھا دیا ہے۔ٹیرف کے نفاذ کے فوراً بعد ٹرمپ نے اپنے پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر تیل کے ڈرم کے ساتھ ایک تصویر شیئر کی، جس پر “امریکہ پہلے” اور “امریکہ واپس آگیا” جیسے جملے درج تھے۔ اس اقدام کو امریکی پالیسی میں سخت گیر رویے کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔بھارتی سرکاری اندازوں کے مطابق اس نئے ٹیرف سے تقریباً 48.2 ارب ڈالر مالیت کی برآمدات متاثر ہوں گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اضافی بوجھ بھارتی برآمد کنندگان کے لیے امریکی منڈی کو غیر مستحکم اور غیر منافع بخش بنا دے گا۔ نتیجتاً روزگار میں کمی اور معیشت کی رفتار سست پڑنے کا خدشہ ہے۔
سابق سیکریٹری خارجہ اور موجودہ رکنِ راجیہ سبھا ہرش وردھن شرنگلا نے کہا کہ نئی دہلی اس جھٹکے کا توڑ تلاش کرنے کے لیے متبادل مارکیٹوں پر کام کر رہا ہے۔ ان کے مطابق بھارت نے آسٹریلیا، متحدہ عرب امارات اور برطانیہ کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کیے ہیں اور یورپی یونین کے ساتھ بھی ایک بڑے معاہدے کے قریب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت اپنے برآمدات کو مختلف خطوں کی طرف موڑ کر نقصان کو کم کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔شرنگلا نے مزید کہا کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان تعلقات سب سے زیادہ جامع اور کثیر جہتی ہیں۔ یہ تعلقات کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ بھارت کے تعلقات سے زیادہ مضبوط ہیں۔ ان کی بنیاد مشترکہ اقدار اور اصولوں پر ہے، جو ہمیں وقتاً فوقتاً آنے والے اتار چڑھاؤ سے نمٹنے میں مدد دیتے ہیں۔ انہوں نے امریکہ میں بھارت کے لیے نئے سفیر کے طور پر سرجیو گور کی نامزدگی کو مثبت پیش رفت قرار دیا۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ تنازع دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک کڑا امتحان ہے۔ اگرچہ تجارتی سطح پر تلخی بڑھی ہے، لیکن سیاسی اور سفارتی روابط اب بھی مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں۔ تاہم، اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بھارتی معیشت پر اس فیصلے کے فوری اور طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے