ٹرمپ اور پوتن کی اہم ملاقات،امن کی امیدیں مگر کوئی واضح نتیجہ نہیں

الاسکا میں ٹرمپ اور پوتن کی ملاقات ہوئی، جنگ بندی نہ ہو سکی، صرف ماسکو دورے کی دعوت اور تعلقات میں نرمی دکھائی دی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کی الاسکا میں پہلی بالمشافہ ملاقات تین گھنٹے تک جاری رہی۔ اس ملاقات کو یوکرین جنگ میں امن کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا جارہا تھا، لیکن اختتام پر جنگ بندی یا کسی ٹھوس معاہدے کا اعلان نہ ہوسکا۔ نتیجتاً صرف پوتن نے ٹرمپ کو ماسکو آنے کی دعوت دی۔پوتن کے لیے یہ دورہ غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔ 2022 میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد مغربی دنیا نے انہیں تنہا کردیا تھا اور ان کے دورے صرف چند روسی حلیف ممالک تک محدود ہوگئے تھے۔ الاسکا میں سرکاری پروٹوکول کے ساتھ استقبال کو روس کے لیے بڑی کامیابی سمجھا گیا۔ حتیٰ کہ پوتن نے اپنی گاڑی کے بجائے ٹرمپ کی بکتر بند لیموزین میں سفر کرنا بھی ترجیح دی، جسے ایک غیر معمولی لمحہ قرار دیا گیا۔
میڈیا کی توجہ کا ایک پہلو یہ بھی رہا کہ پوتن سے ایسے تیکھے سوالات کیے گئے جو روس میں ناممکن ہیں۔ ایک صحافی نے پوچھا کہ “کیا آپ عام شہریوں کی ہلاکتیں روکیں گے؟” لیکن پوتن خاموش رہے۔ اسی طرح یوکرین کے صدر زیلنسکی کے ساتھ ممکنہ سہ فریقی ملاقات پر بھی انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دونوں رہنماؤں نے صرف بیانات دیے اور صحافیوں کے سوالات نہیں لیے۔پوتن نے کہا کہ بات چیت “باعزت اور مفید” رہی، مگر ساتھ ہی یوکرین پر وہی پرانی شرائط پیش کیں۔کرائمیا اور دیگر علاقوں پر روسی حاکمیت کی تسلیم یابی، یوکرین کو ہتھیار نہ دینا اور نئی سیاسی ترتیب۔ یہ سب شرائط یوکرین کے لیے ناقابلِ قبول ہیں۔ ٹرمپ نے بھی غیر معمولی طور پر مختصر بات کی اور جنگ بندی کا ذکر کرنے کے بجائے صرف ہلاکتوں پر افسوس کیا۔
اگرچہ کسی معاہدے یا جنگ بندی کا اعلان نہ ہوا، لیکن دونوں رہنماؤں کے بار بار ہاتھ ملانے اور مسکراتی تصاویر نے دنیا بھر میں توجہ حاصل کی۔ ملاقات کے آخر میں پوتن نے انگریزی میں ہنستے ہوئے کہا: “اگلی بار ماسکو میں”، جس پر ٹرمپ نے جواب دیا کہ “شاید یہ ممکن ہے۔”یوں یہ اجلاس یوکرین جنگ کے حل کے بجائے روس اور امریکہ کے تعلقات میں ایک نئی نرمی کا اشارہ بن کر سامنے آیا۔