اصلاح و ارشاد کا قرآنی اسلوب

نعمان واحدی احسنی مصباحی
جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ایٹہ(یوپی)
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

ترجمہ کنز الایمان : اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو بیشک تمہارا رب خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکا اور وہ خوب جانتا ہے راہ والوں کو.
اس ایت کریمہ میں اللہ تعالی نے داعیان حق و صداقت، رہبران دین و شریعت کے لیے دعوت و تبلیغ کے اصول و ضوابط ارشاد فرمائے ہیں لہذا جب ہم کسی کے عقائد و نظریات اور عادات و اعمال کی اصلاح کرنا چاہیں تو ایک داعی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان اصول کو پیش نظر رکھے ورنہ انتشار و افتراق کے سوا کچھ ہاتھ نہیں ائے گا اور ساتھ ہی ساتھ اس ایت پر بھی نظر رکھنی چاہیے ” واللہ یعلم المفسد من المصلح” اللہ خوب جانتا ہے فساد پھیلانے والے کو اور اصلاح کرنے والے کو۔
اس زمانے میں تنقید و تحقیق، اصلاح و ارشاد کے نام پر جو فتنہ و فساد برپا ہے ہر ذی شعور پر عیاں ہے۔
آج حمایت دین و شریعت، رد بدعت و ضلالت کے نام پر کس عالم ذیشان کی ٹوپی نہیں اچھالی گئی، کس فاضل وقت کی عزت سے کھلواڑ نہیں کی گئی سوشل میڈیا پر جاؤ تو چیخ و پکار اور دھمکی و للکار کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا اللہ خیر فرمائے
آج ہمارا حال تو یہ ہو چکا ہے دین کی نصرت و حمایت اور عقائد کے تحفظ کا صور پھونک کر ایک ہی لمحے میں اپنے اکابرین تک پر حملہ اور ہو جاتے ہیں جبکہ بہت سارے مسائل بڑی آسانی سے حل کیے جا سکتے ہیں لیکن مسائل حل کرنے کے نام پر ہم نے کبھی کسی نشست کا انعقاد روا نہیں سمجھا ظاہر سی بات ہے جب اصول و ضوابط کو سامنے رکھ کر مسئلہ کو حل کیا جائے گا تو فریقین میں سے کسی ایک کو یا تو رجوع کرنا ہوگا یا مناسب تاویلات کا سہارا لینا ہوگا یا متکلم خود ہی اپنے کلام کی ایسی صاف ستھری وضاحت پیش کر دے گا کہ تمام شبہات و اشکالات تار عنکبوت کی مانند نظر ائیں گے رجوع کی صورت ہو یا مناسب تاویلات ہوں یا پھر متکلم کی جانب سے صریح وضاحت یہ تینوں ہی طریقے اتفاق و اتحاد کی شان ہیں۔ اور “فوق کل ذی علم علیم” پر ہم سب کا ایمان بھی ہے لہذا دین و سنیت کو بازیچہ اطفال نہ بنایا جائے اور نہ ہی سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا کیا جائے یہ حرکات ایک ذی ہوش ،دور اندیش اور ہمدرد قوم و ملت کی شان عظیم کے لائق نہیں۔
دعوت و تبلیغ اور اصلاح و ارشاد کے جو اصول قران پاک نے ہمیں دیے ہیں ہم سب کو ان کا پابند رہنا چاہیے تاکہ ہماری گفتگو سے دین کو نفع ہو اور ہمارا علم نافع ہو اب ذرا ہم غور کریں کہ ہم اصلاح کے معاملے میں کس قدر راہ حق سے دور و نفور ہیں ہمارے انداز اصلاح و ارشاد میں نہ تو محکم تدبیریں ہیں اور نہ ہی ترغیبات و ترہیبات سے ہمیں کوئی سروکار ہے اور طریقہ احسن سے ہم قطعی طور پر نا اشنا معلوم ہوتے ہیں بس کوئی بات ہوئی سوشل میڈیا پر ہنگامہ شروع کر دیتے ہیں یاد رکھیں اللہ خوب جانتا ہے کون فسادی ہے اور کون اصلاح چاہ رہا ہے اللہ پاک ہم سب کو علم نافع ،رزق واسع ،قلب خاشع عطا فرمائے-آمین