قمرالحق شیخ غلام رشید عثمانی جون پوری

ابرار رضا مصباحی
آپ بارہویں صدی ہجری کے ممتاز عالم دین ، عظیم شیخ طریقت اور بلند پایہ مصنف ومحقق تھے ۔علوم ظاہری و باطنی دونوں میں آپ کوکمال حاصل تھا۔
آپ کااسم گرامی ’’ غلام رشید‘‘ ،کنیت ’’ابی الفیاض‘‘ اور لقب’’ قمر الحق‘‘ و’ ’ قطب الاولیاء‘‘ہے۔آپ قطب الاقطاب شیخ محمدرشید عثمانی جون پوری (بانی خانقاہ رشیدیہ) کے پڑپوتے ، بدر الحق شیخ محمد ارشد عثمانی جون پوری(دوسرے سجادہ نشیں:خانقاہ رشیدیہ) کے حقیقی پوتےاور خلیفہ وجانشیں اور شیخ محب اللہ افضل عثمانی جون پوری کے فرزند ارج مند تھے اور حضرت شیخ محمد جمیل جون پوری کے تلمیذ ارشداور نیک نام داماد۔
آپ۸؍ربیع الاول ۱۰۹۶ھ؍۱۲؍فروری۱۶۸۵ء کو پیدا ہوئے۔ صغر سنی ہی میں والدین کریمین کا سایہ آپ کے سرسے اٹھ گیا۔ جدامجدنے آپ کی پرورش و کفالت کی اور تعلیم و تربیت کی ذمے داری نبھائی۔ درسیات کی تعلیم و تکمیل اپنے جد امجد شیخ محمد ارشد عثمانی اور شیخ محمد جمیل جون پوری سے کی۔ شیخ محمد جمیل جون پوری کی صاحب زادی سے آپ کا عقد ہوا جن کے بطن سے ایک صاحب زادی شافعہ بی بی پیداہوئیں جن کی شادی شیخ محمدجمیل جون پوری کے پوتے مولانا فصیح الدین جون پوری سے ہوئی جو آپ کے مرید وخلیفہ تھے جن کےفرزندحضرت نور الحق شاہ حیدر بخش رشیدی قدس سرہ آگے چل کرخانقاہ رشیدیہ جون پور کے چوتھے سجادہ نشیں ہوئے۔
آپ اپنے جد امجد حضرت بدر الحق سے ۱۱۰۶ھ میںسلسلۂ چشتیہ احمدیہ میں مرید ہوئے ۔ پیر و مرشد نے ۱۱۱۲ھ میںآپ کو اجازت و خلافت عطا کی اور اپنے علوم و معارف کا وارث مقرر کرکے خانقاہ رشیدیہ کا تیسرا سجادہ نشیں منتخب فرمایا۔
آپ ظاہری و باطنی علو م میں نادرِ روزگار اور فقید المثال تھے۔ جبینِ سعادت سے ولایت و بزرگی کے آثار ایامِ طفلی ہی سے ہویدا تھے۔ آپ کے دادا حضرت بد ر الحق آپ کی خدمت و حفاظت کو اپنے لیے عملِ عبادت اور باعثِ سعادت تصور فرماتے۔ آپ اپنےجدِ اعلیٰ حضرت جمال الحق بندگی شیخ مصطفیٰ عثمانی قدس سرہ کے روضۂ پُر انوار کی زیارت کے لیے درگاہ شریف چمنی بازار پورنیہ گئے تو یہاں سے آپ کو ’’ابی الفیاض ‘‘ کی کنیت اور’’ قمر الحق‘‘ کا لقب عطا ہوا جیسا گنج ارشدی میں فرماتے ہیں:
’’مرتب احقر نے بھی پورنیہ پہنچ کرحضرت جمال الحق کے روضۂ انورکی زیارت کی سعادت حاصل کی ہے اور مقبرہ ٔمبارکہ کے محلے میں چند دنوں تک قیام کیا ہے ۔آپ کی عنایات واحسانات کو تحریر میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ فقیر کو ’’ابو الفیاض ‘‘کی کنیت اور ’’قمر الحق‘‘کا لقب آپ ہی کی بشارت کے اشارے سے حاصل ہوئےہیں‘‘۔(ص:100)
آپ کی علمی وفکری ، تصنیفی وتحقیقی، دینی و مذہبی اوراخلاقی وروحانی خدمات مختلف جہتوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ آپ نےسلسلۂ رشیدیہ کی اشاعت و توسیع میں تجدیدی کارنامے انجام دیے۔ ملک کے مختلف گوشوں میں دعوتی و تبلیغی اسفار کے ذریعے دینی و اخلاقی پیغامات کو عام کیا اور خلق خدا کو تعلیم و تلقین سے آراستہ کرکے انھیں فائز المرام فرمایا۔ علمی و تحقیقی میدان میں بھی بڑےتاریخ ساز کارنامے انجام دیے جوآبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔آپ نے نحو و صرف ، فقہ و تصوف،تذکرہ و سوانح ، اصلاحِ اعمال و عقائد وغیرہ پر مختلف کتب و رسائل تحریر کیے۔ ا پنے نواسے اورمرید و خلیفہ حضرت نور الحق شاہ حیدر بخش رشیدی (چوتھے سجادہ نشیں: خانقاہ رشیدیہ) کے لیے رسالہ ’’درایۃ النحو‘‘ کی ایک بسیط شرح ’’نحویہ حیدریہ ‘‘ کے نام سے رقم کی،نیز انہی کے لیے عربی زبان میں نحو کی مشہور کتاب ’’مغنی اللبیب‘‘کی’’تقویم النحو‘‘ کے نام سے جامع تلخیص فرمائی جو حال ہی میںمولانا محمد شہباز عالم مصباحی صاحب( سیتل کوچی کالج،کوچ بہار،مغربی بنگال) کی ترتیب وتحقیق کے ساتھ شائع ہوچکی ہے ۔ گنج ارشدی ،شرح قصیدۂ غوثیہ، فتاویٰ در فقہ،زاد الآخرت،سفر نامہ،حاشیہ بر زاہدیہ، اربع منازل، مکتوبات فیاضی وغیرہ آپ کے اہم قلمی نقوش ہیں۔ان کے علاوہ گنج فیاضی آپ کے ملفوظات کا اہم مجموعہ ہے جو بارہویں صدی ہجری میں علمی، اخلاقی، روحانی ،سیاسی ،سماجی اورثقافتی معلومات کے اعتبار سے ایک بیش بہا ذخیرہ ہے۔ شرح قصیدۂ غوثیہ اور تقویم النحو کے علاوہ آپ کی تمام تصنیفات و تالیفات اب تک قلمی اور غیر مطبوعہ ہیں،تاہم ان میں گنج فیاضی اور مکتوبات فیاضی پر کام چل رہا ہے۔ مکتوباتِ فیاضی کا ترجمہ مولانا محمد عارف اللہ فیضی مصباحی صاحب( سابق استاذ: مدرسہ عربیہ فیض العلوم محمد آباد گوہنہ ضلع مئو) اورگنج فیاضی کا ترجمہ مولانا فخر الحسن رشیدی صاحب( ساکن مالدھیا مغربی چمپارن) کر رہے ہیں ۔
حضرت قمر الحق کا نمایاں علمی و تاریخی کام ’’گنج ارشدی‘‘ کی ترتیب و تدوین ہے جس کی شروع ہی سے آپ کے اندر دلی خواہش اور بڑی آرزوتھی جو آخر پوری ہوئی۔چناں چہ آپ فرماتے ہیں:
’’اِس خاک ساروپراگندۂ روزگار کی بھی اپنے سن شعور کے آغاز سے ہی بڑی آرزو اور تمنا تھی کہ اپنی خوش بختی اور قسمت کی ارجمندی سے یہ عظیم ترین دولت و نعمت، صحراے ناکامی کے اِس سرگرداں اور بیابانِ نامرادی کے اِس حیران کے نام زد ہوجائے۔اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور شکرو احسان کہ معلوم زمانہ اور معیَّن وقت میں کل امور مرہونۃ باوقاتہاکے مطابق ربِ کریم کے کرمِ عام کے طفیل نگاہِ بصیرت سے شاہد مقصود کے رخ کا معاینہ کیا اور سعادت کی راحت کا کاشانۂ دل میں اِضافہ کیا‘‘۔(ص:35)
آپ نے نہ صرف گنج ارشدی کو مرتب فرمایا بلکہ اس میں جگہ جگہ اپنے بیش بہا حواشی رقم کرکے اور اپنی نادر معلومات جمع کرکےاس کی اہمیت وافادیت کو دوبالا کرددیا۔آپ نے اپنے خاندانی بزرگوں اور ہم عصر علما و مشائخ سے مسموع روایات وواقعات اور اپنے مشاہدات و محسوسات کو بھی درج کردیا ہے جو بعض حواشی میں اور بعض متن میں مندرج ہیں جن کو آپ نے ’’مرتب احقر‘‘ کہہ کر بیان فرمایا ہے ۔
آپ کا وصال درگاہ شریف چمنی بازار پورنیہ سے سفر جون پور کے دوران ۵؍ صفر ۱۱۶۷ھ / ۳۰؍نومبر۱۷۵۳ء میں بمقام کاڑھا گولہ ضلع کٹیہاربہار میں ہوا۔ چار مہینے کے بعد۵؍جمادیٰ الاخریٰ۱۱۶۷ھ ؍ ۲۹؍مارچ ۱۷۵۴ء میں آپ کی نعش مبارک کو جون پور لاکر رشید آبادمیں آپ کے جد بزر گ وار اور پیر ومرشد حضرت بدر الحق کے پائینتی میں دفن کیا گیا۔آپ کا جسم مبارک بدستور تازہ تھا جس سے طرح طرح کی کرامات کاظہورہواتھا۔آپ کے فضائل ومناقب اور واقعات وکرامات بہت ہیں جو’’ گنج فیاضی‘‘ مرتبہ شیخ غلام شرف الدین رشیدی مہدانوی ،وسیلۃ النجاۃ مرتبہ شیخ احسن اللہ علوی جون پوری، ’’کرامات فیاضی‘‘ مرتبہ میر سیدغلام حسین رشیدی شورشؔ عظیم آبادی اور’’ سمات الاخیار‘‘ مصنفہ مولانا عبد المجید کاتبؔ مصطفیٰ آبادی میں مذکور ہیں۔