سیاسی بصیرت

مسلمان اپنی حکمت عملی پر غور کریں

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

موجودہ عہد کئی اعتبار سے نہایت پیچیدہ اور مشکلات سے بھرپور ہے۔ تیز رفتار سائنسی ترقی، تہذیبی تصادم، میڈیا کا غلبہ، فکری انتشار، معاشی بے یقینی اور اخلاقی بحران نے دنیا کے ہر اِنسان، بالخصوص مسلمانوں کو کافی حد تک متأثر کر رکھا ہے۔ ایک طرف اسلاموفوبیا بڑھ رہا ہے، تو دوسری طرف خود مسلم دنیا داخلی مسائل میں اُلجھی ہوئی ہے۔ ایسے نازک عہد میں مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ محض ردّ عمل تک محدود نہ رہیں بلکہ ایک مثبت فکر، سیاسی بصیرت اور مؤثر حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھیں۔
ملکی اور عالمی سطح پر دیکھا جائے تو آج دُنیا بھر میں مسلمانوں کو ایک ’’سیاسی مسئلہ‘‘ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ کہیں دہشت گردی کے الزام میں اُنھیں نشانہ بنایا جا رہا ہے، کہیں اُن کی شناخت کو مشتبہ بنا دیا گیا ہے، کہیں اُنھیں مذہب کے نام پر زد وکوب کیا جارہا ہے اور کہیں اُنھیں سماجی و سیاسی میدان سے باہر کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ہندوستان جیسے ممالک میں فرقہ وارانہ سیاست کا زور بڑھ رہا ہے۔ اکثریتی سیاست کی پیداوار نے اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے لیے دائرۂ حیات تنگ کر دیا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور شہریت قومی رجسٹر ( NRC) جیسے قوانین، ووٹرلسٹ خصوصی نظر ثانی، ہجومی تشدد، بلڈوزر نظام، مذہبی آزادیوں پر قدغن اور تعلیمی و اقتصادی میدان میں پسماندگی، وقف ترمیم، بےقصور مسلمانوں کی قید و بند کی صعوبتیں وغیرہ اِس سیاسی پس منظر کا حصہ ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر بھی، فلسطین، ایران، کشمیر، شام، یمن اور چین کے مسلمانوں کے حالات، مسلم قائدین کے ضمیر کے امتحان کا باعث ہیں، مگر مسلم قیادت یا تو خاموش ہے یا مجبور۔ اِس تناظر میں مسلمانوں کو اَب نئی سطح پر اپنی موجودگی، سیاسی بیداری اور ملکی وعالمی کردار کو اَز سر نو متعین کرنے کی ضرورت ہے۔
اِس سلسلے میں سب سے اہم یہ ہے کہ مسلمان سیاسی و معاشرتی سطح پر منظم و متحد ہوں۔ کیوں کہ مسلمانوں کی بڑی کمزوری اُن کا بکھرا ہوا شیرازہ بھی ہے۔ مسلکی، لسانی اور علاقائی اختلافات نے مسلمانوں کو اِنتشار کی حد تک منقسم کر رکھا ہے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ آج ہر مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے اور فرقہ بندی کے تمام راستے مسدود کردے۔ کیوں کہ اختلافات کو حکمت، رواداری اور مکالمے سے سلجھا کر ایک اُمت بن کر آگے بڑھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پھر چوں کہ مسلمان دین اسلام کے پیروکار ہیں اور اِسلام کا سب سے طاقتور پہلو اُس کی اخلاقی تعلیمات ہیں۔ لہٰذا دِیانت، عدل، تحمل، عفو، سخاوت اور خدمتِ خلق جیسی اقدار کو فرد اور معاشرے کی سطح پر زندہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ اخلاقی بلندی ہی تھی جس نے ابتدائی اسلام کو دنیا میں پھیلایا اور وقار کے ساتھ دنیا کے سامنے اپنا سربلند رکھا۔
آج منظم طورپر اِسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹے پیروپیگنڈے کیے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جدید ذرائع ابلاغ میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں اور اُس میں اپنی پوزیشن بھی مضبوط ومستحکم کریں۔ سوشل میڈیا، فلم، ڈاکومنٹری اور صحافت کے ذریعے اپنی کہانی خود لوگوں تک پہنچائیں۔ صرف شکایتیں کافی نہیں بلکہ متبادل طریقہ کار اِختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ اِس بات سے کسے انکار ہوسکتا ہے کہ آج مسلمانوں کے مخالفین خواہ عالمی سطح پر ہوں یا ملکی سطح پر، میڈیا کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں۔ آج مسلمانوں کے بڑے سے بڑے مسائل کو بھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور اُن سے متعلق چھوٹی سے چھوٹی باتوں کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے سارا قصور صرف اور صرف مسلمانوں کا ہو۔ لہٰذا میڈیا کی طاقت اور موجودہ عہد میں اُس کی افادیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اِس میدان میں صالح قدم اٹھانا ہوگا۔ بصورت دیگر مسلمانوں کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوگی اور پھر کف افسوس ملنے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئےگا۔
علاوہ ازیں معاشی کفالت میں مضبوطی کے ساتھ قدم بڑھانا بھی وقت کا اہم تقاضا ہے۔ آج معاشی کمزوری نے مسلمانوں کو یا تو دوسروں کا محتاج بنا دیا ہے یا پھر اُنھیں خود غرض اور بےایمان بنا دیا ہے۔ وقف، زکاۃ، اسلامی مالیات اور باہمی تجارت کے اصولوں کو بروئے کار لا کر معاشی طاقت پیدا کی جا سکتی ہے۔ مسلمانوں کو چھوٹے کاروبار اور حلال انویسٹمنٹ کے ذریعے اپنے قدم مضبوط کرنے ہوں گے۔ عالمی اور ملکی ہر دو سطحوں پر معاشیات کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ آج سیاست ومعاشرت پر بھی اُنھیں لوگوں کا قبضہ ہے معاشیات جن کے تابع ہیں۔ ہندوستان کے اندر اَڈانی و انبانی اور عالمی سطح پر اسرائیل و امریکا کی شکل میں اِس کی واضح مثالیں موجود ہیں۔
مسلمانوں کے لیے ملکی سیاست بالخصوص ایک اہم اور بڑا مسئلہ ہے۔ اِس لیے موجودہ سیاسی پس منظر میں مسلمانوں کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر سیاسی بیداری پیدا کریں۔ جمہوری نظام میں اپنی قانونی و سیاسی حیثیت کو پہچانیں۔ جذبات سے ہٹ کر حکمت اور فہم سے کام لیں۔ آئینی حقوق کو جانیں اور اُس کے تحفظ کے لیے قانونی سطح پر منظم ہوں، سیاسی جماعتوں کے وعدوں کا تجزیہ کریں اور صرف جذباتی نعروں کے بجائے پالیسیوں کو دِیکھ کر فیصلہ کریں، خود اپنے اندر سے قیادت پیدا کریں، چاہے وہ مقامی سطح پر ہو یا قومی سطح پر۔ مسلمانوں کو اِس بات کا علم و ادراک ہونا چاہیے کہ جمہوری نظام میں محض شکوے کافی نہیں، بلکہ پارلیمنٹ، اسمبلی، بلدیات اور پنچایتوں میں مؤثر شراکت کے ذریعے ہی تبدیلی ممکن ہے۔ بالخصوص آج جب کہ ریاست بہارمیں اسمبلی انتخاب قریب ہے، تو ایسے میں مسلمانوں کو اِنتہائی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی اور اپنے قیمتی ووٹوں کو بندر بانٹ ہونے سے بہرصورت روکنا ہوگا۔ سیاسی حقائق بتاتے ہیں کہ مسلم ووٹوں کے دعویداران میں ہرطرح کی سیاستی جماعتیں شامل ہیں۔ اُن میں سیکولر بھی ہیں اور کمیونل بھی ہیں۔ بعض سیکولر جماعتیں خوف و ہراس میں مبتلا کر کے مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہیں اور بعض سیکولر جماعتیں جذبات کے نام پر ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ جب کہ کمیونل جماعتیں اَموال اور ضمیرفروش مسلم قائدین کے سہارے مسلم ووٹوں میں سیندھ مارنا چاہتی ہیں۔ اِس اعتبار سے بہار کا اسمبلی انتخاب مسلمانوں کی سیاسی حکمت عملی کے ساتھ اُن کے مستقبل کو بھی طے کرےگا۔ بلاشبہ اِنڈیا اتحاد، این ڈی اے، ایم آئی ایم اور جن سوراج اِن تمام جماعتوں کی نظریں مسلمانوں پر ہیں۔ چناں چہ اگر مسلمان پہلے کی طرح بندر بانٹ کا شکار ہوتے ہیں اور ضمیرفروش مسلم قائدین کے جھانسے میں آتے ہیں، یا پھر برادری واد کے جال میں پھنستے ہیں، تو ہجومی تشدد، بلڈوزر نظام، عبادت گاہوں کی بےحرمتی، مذہبی امتیازات، دینی اداروں پر شب خون، وقف سے دست برداری، بے قصور مسلمانوں کی قید و بند، دوسرے درجے کی شہریت ہونا اُن کا مقدر ہے۔ اب یہ فیصلہ مسلمانوں کو کرنا ہے کہ وہ اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کس نہج پر کرتے ہیں اور ریاست سے لے کر مرکز تک اپنے وجود کا اِحساس کتنا مؤثر انداز سے کرا پاتے ہیں!
بہرحال! موجودہ عہد بظاہر بڑا کٹھن اور دشوار گزار ہے، مگر یہی وقت مسلمانوں کے لیے اپنی عظمت کی بازیابی کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ اگر مسلمان علم، اتحاد، اخلاق اور مثبت فکر کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو وہ نہ صرف اپنے سیاسی و معاشرتی مشکلات و مسائل پر قابو پا سکتے ہیں بلکہ ملک کی سالمیت اور اِنسانیت کے لیے بھی روشنی کے مینار ثابت ہوسکتے ہیں۔ آج وقت ہے کہ ہم تنقید کے بجائے تعمیر کی طرف قدم بڑھائیں، جذباتیت کے بجائے حکمت کو اپنائیں اور ماضی کی عظمت کو حال کے عمل سے زندہ کریں۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

سیاسی بصیرت

ٹی ایم سی رائے گنج لوک سبھا الیکشن کیوں نہیں جیت پاتی؟

تحریر: محمد شہباز عالم مصباحی رائے گنج لوک سبھا حلقہ مغربی بنگال کی ایک اہم نشست ہے جس کی سیاسی
سیاسی بصیرت

مغربی بنگال میں کیا کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے؟

محمد شہباز عالم مصباحی سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال مغربی بنگال، جو ہندوستان کی سیاست میں