کاپی رائٹ قانون میں ترمیم: چہرہ، آواز بھی شامل ہوں گے

ڈنمارک حکومت ڈیپ فیک کے خطرے سے نمٹنے کے لیے شہریوں کو چہرے، آواز اور جسم پر کاپی رائٹ دینے کا قانون لانے کی تیاری کر رہی ہے۔
مصنوعی ذہانت اور ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال نے جہاں معلوماتی تحفظ کے مسائل کو جنم دیا ہے، وہیں اب لوگوں کے چہروں، آواز اور جسمانی خصوصیات کے غلط استعمال کا خطرہ بھی تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اسی پس منظر میں ڈنمارک کی حکومت نے ایک اہم اور تاریخی قدم اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ڈنمارک حکومت نے کہا ہے کہ وہ کاپی رائٹ قانون میں ایسی ترمیم لانے جا رہی ہے جس کے بعد ہر شہری کو اپنی ظاہری شناخت — جیسے چہرہ، آواز اور جسمانی ساخت — پر قانونی ملکیت حاصل ہو جائے گی۔ اس قانون کا مقصد مصنوعی طریقے سے بنائی گئی جعلی ویڈیوز (ڈیپ فیکس) کے پھیلاؤ کو روکنا اور عوام کی ڈیجیٹل شناخت کی حفاظت کو مضبوط بنانا ہے۔
برطانوی اخبار دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق، اگر یہ قانون منظور ہو جاتا ہے تو ڈنمارک یورپ کا پہلا ملک ہوگا جہاں کسی فرد کی جسمانی اور صوتی شناخت کو کاپی رائٹ تحفظ حاصل ہوگا۔ڈنمارک کی وزارت ثقافت کے مطابق اس مجوزہ ترمیم کو تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے، اور حکومت اسے آئندہ چند مہینوں میں پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ تیار کردہ مسودہ قانون میں “ڈیپ فیک” کو اس طرح کی ڈیجیٹل نقل قرار دیا گیا ہے جو کسی فرد کی شکل، آواز اور دیگر ذاتی خصوصیات سے ملتی جلتی ہو۔ڈنمارک کے وزیر ثقافت جیکب اینجل شمیت نے اس اقدام کو شہری آزادیوں کے تحفظ کی طرف ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس قانون سازی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پُرعزم ہیں۔