بہار میں بدلتی دلت سیاست: چندرشیکھر کی انٹری نے پیدا کی نئی ہلچل

چندرشیکھر آزاد کی بہار سیاست میں انٹری سے دلت ووٹ بینک میں نئی ہلچل مچ گئی ہے، جو روایتی قیادت کے زوال کے بعد متبادل قیادت کا اشارہ ہے۔
پٹنہ۔بہار میں دلت ووٹ بینک کو لے کر سیاسی مقابلہ عروج پر ہے۔ این ڈی اے اور مہاگٹھ بندھن دونوں ہی اپنے اپنے طور پر اس ووٹ بینک کو اپنی جانب مائل کرنے کی بھرپور کوشش میں ہیں۔ تاہم، این ڈی اے میں شامل جیتن رام مانجھی کی پارٹی “ہم” اور لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) کے رہنما چراغ پاسوان کے درمیان اندرونی اختلافات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ دوسری طرف مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) جیسی جماعتیں بھی خود کو دلتوں کی نمائندہ قرار دے رہی ہیں۔اسی سیاسی ماحول میں ایک نیا موڑ تب آیا جب بھیم آرمی کے سربراہ اور آزاد سماج پارٹی کے قومی صدر چندرشیکھر آزاد نے اعلان کیا کہ وہ بہار اسمبلی انتخابات میں اپنی پارٹی کے ساتھ حصہ لیں گے۔ پچھلے کچھ برسوں میں چندرشیکھر ایک پرجوش، جارحانہ اور جدوجہد کرنے والے دلت لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں۔ ان کے اس فیصلے کو دلت سیاست کے مستقبل پر گہرے اثرات ڈالنے والا قدم سمجھا جا رہا ہے۔
جے این یو کے سیاسیات کے استاد ڈاکٹر ہریش ایس وانکھڑے کا ماننا ہے کہ بہار میں دلت ووٹ سیاسی طور پر اہم تو ہے، لیکن معاشی بدحالی، سماجی عدم مساوات اور ذات پات کی تقسیم نے اس اثر کو کمزور کر رکھا ہے۔ اس پس منظر میں سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا چندرشیکھر بکھری ہوئی دلت سیاست کو متحد کر پائیں گے؟
روایتی قیادت کمزور، نئے متبادل کی تلاش
اب تک بہار کی دلت سیاست زیادہ تر رام ولاس پاسوان اور جیتن رام مانجھی جیسے لیڈروں کے گرد گھومتی رہی ہے۔ مگر ایک طرف جہاں پاسوان کا انتقال ہو چکا ہے، وہیں لوک جن شکتی پارٹی اندرونی خلفشار کا شکار ہو چکی ہے۔ جیتن رام مانجھی کی سیاسی اہمیت بھی محدود ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے وقت میں چندرشیکھر کی آمد ایک نئے اور ممکنہ متبادل قیادت کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ ریاست میں دلت ووٹروں کی تعداد تقریباً 20 فیصد ہے، جن میں سب سے زیادہ تعداد چمار (رَوِداس) اور پاسوان (دُسادھ) برادری کی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، دلت ووٹروں میں 31 فیصد رَوِداس اور 30 فیصد پاسوان ہیں، جبکہ 14 فیصد کے قریب موسہر (مانجھی) برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ بہار اسمبلی میں دلتوں کے لیے 38 نشستیں مخصوص ہیں، جن میں سے اس وقت 21 پر این ڈی اے اور 17 پر مہاگٹھ بندھن قابض ہے۔
مایاوتی کا اثر اور چندرشیکھر کا ہدف
چراغ پاسوان اور جیتن رام مانجھی ابھی بھی دلت سیاست کے اہم چہرے مانے جاتے ہیں۔ بعض علاقوں میں مایاوتی کی بی ایس پی کا بھی محدود اثر ہے، خاص طور پر ان اضلاع میں جو اتر پردیش سے متصل ہیں، جیسے کہ بکسّر، روہتاس اور کیمور۔ یہاں چین پور، موہنیا، بھبھوا اور بکسّر جیسے حلقوں میں بی ایس پی نے کئی بار اپنا اثر دکھایا ہے۔ اگرچہ جیت کی تعداد کم رہی، لیکن مقابلہ سخت رہا ہے۔چندرشیکھر آزاد اسی میدان میں جگہ بنانے کے ارادے سے بہار کی سیاست میں قدم رکھ رہے ہیں۔ مایاوتی نے واضح کر دیا ہے کہ وہ نہ این ڈی اے کا حصہ بنیں گی، نہ “انڈیا” اتحاد کا، بلکہ تنہا الیکشن لڑیں گی۔ ان کے اس اعلان سے اسدالدین اویسی کی پارٹی AIMIM کے ممکنہ تیسرے محاذ کے خواب کو دھچکا لگا ہے۔ یاد رہے کہ 2020 کے اسمبلی الیکشن میں بی ایس پی، AIMIM، RLSP اور دیگر جماعتوں نے ‘گرینڈ ڈیموکریٹک سیکولر فرنٹ’ کے تحت اتحاد کیا تھا، لیکن یہ اتحاد زیادہ کامیاب نہیں رہا۔اسدالدین اویسی کی پارٹی کو 5 سیٹیں ملیں، جب کہ بی ایس پی صرف ایک سیٹ پر کامیاب ہو سکی۔ بعد میں وہ واحد بی ایس پی ایم ایل اے بھی جے ڈی یو میں شامل ہو گیا، اور اویسی کے 4 میں سے 4 ایم ایل اے بھی پارٹی چھوڑ گئے۔ اب AIMIM کے پاس صرف اخترال ایمان بچے ہیں، جو پارٹی کے ریاستی صدر بھی ہیں۔
بڑی پارٹیوں کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی
چندرشیکھر آزاد نہ صرف موجودہ دلت قیادت بلکہ جے ڈی یو، آر جے ڈی اور کانگریس جیسی روایتی جماعتوں کے لیے بھی چیلنج بن سکتے ہیں، جنہوں نے مختلف اوقات میں دلت ووٹ بینک کو اپنے حق میں استعمال کیا ہے۔ اگر وہ دلت-مسلم اتحاد کی بنیاد پر نئی حکمت عملی تیار کرتے ہیں، تو ریاست میں سیاسی اور سماجی توازن میں بڑی تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے۔پروفیسر وانکھڑے کے مطابق، دلت ووٹرز بہار کی تقریباً 15 لوک سبھا سیٹوں اور کئی اسمبلی حلقوں میں فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر چندرشیکھر ان ووٹوں کو متحد نہیں بھی کر پاتے، تب بھی یہ یقینی ہے کہ دلت ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ کسی نہ کسی بڑی جماعت، بالخصوص بی جے پی کو ہو سکتا ہے۔