سیاسی بصیرت

’اودے پور’ کے بہانے …

ودود ساجد

ایڈیٹر: روزنامہ انقلاب،دہلی

دس جولائی کو دہلی ہائی کورٹ نے ایک تفصیلی‘ جامع اور شاندار فیصلہ سناکر دو اہم کام کردئے۔ جمعیت علماء ہند کی معرفت ہندوستانی مسلمانوں کو یک گونہ اطمینان بخشا اور کانٹوں سے لیس ایک بڑی سی گیند مرکزی حکومت کے پالے میں ڈال دی۔ ’اودے پور فائلز‘ نامی انتہائی اشتعال انگیز فلم کی ریلیز پر پابندی لگاکر ہائی کورٹ نے ایک غیر معمولی کام کیا۔
عبوری ہی سہی‘ پابندی کا فیصلہ اس لئے غیر معمولی ہے کہ عام طور پر اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اور دستور کی دفعہ 19 کا تحفظ کرنے کے عدلیہ کے غیر معمولی عہد کے سبب نفرت کے سوداگر اکثر بچ نکلتے رہے ہیں۔ لیکن 10جولائی کا دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ اس ’روایتی ٹریک‘ سے ہٹ کر ہے . اس فیصلہ نے اودے پور فائلز سے وابستہ نفرت کے تمام سوداگروں کی گردنوں میں طوق ڈال دئے ہیں۔ یہ فیصلہ اس لئے بھی غیر معمولی ہے کہ اس نے اس صورتحال کو بھی ظہور پزیر ہونے سے روک دیا جس کے سبب معاشرہ میں نفرت پھیل جائے اور لوگ ایک دوسرے پر تشدد کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ اس فلم کے جاری شدہ ٹریلر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فلم میں ایسے فرقہ وارانہ واقعات اور ایسے منافرت انگیز بیانات کو دوہرایا گیا ہے کہ جن کی وجہ سے ماضی میں فرقہ وارانہ حالات خراب ہوچکے ہیں۔
’اودے پور فائلز‘ نامی فلم راجستھان کے اودے پور میں 28 جون 2022 میں ہونے والے کنہیا لال درزی کے قتل پر مبنی ہے۔ کنہیا لال نے بی جے پی کی سابق ترجمان ’نوپور شرما‘ کے اس بیان کی حمایت کرنے والی ایک ویڈیو کو شیئر کیا تھا جس میں اس نے تاجدار مدینہ کی شان میں 27 مئی 2022 کو ایک ٹی وی بحث کے دوران ناقابل بیان گستاخی کی تھی۔ اس پر ہندوستان ہی نہیں پوری مسلم دنیا میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی تھی۔ عرب دنیا نے اور خاص طور پر سعودی عرب نے بھی اس کے خلاف ردعمل ظاہر کیا تھا۔ مرکزی حکومت کو سفارتی سطح پر وضاحت جاری کرنی پڑی تھی اور پھر بی جے پی نے اپنی ترجمان نوپور شرما کو معطل کردیا تھا۔ معاملہ یہیں ختم ہوجاتا لیکن شرپسندوں نے نوپور شرما کے بیان اور اس کی تائید کے سلسلہ کو بڑھاکر مسلمانوں کے جذبات کو برافروختہ کرنا شروع کردیا۔ اسی ضمن میں اودے پور کے کنہیا لال نے بھی ایک ویڈیو شیئرکی تھی جس میں نوپور شرما کی حمایت کی گئی تھی۔ اس پر اودے پور میں دو مسلم نوجوانوں نے مبینہ طور پر کنہیالال کا قتل کردیا تھا۔ ایک درجن کے قریب مسلم نوجوان اس وقت جیل میں ہیں اور ان پر مقدمہ چل رہا ہے۔
نوپور شرما کا بیان اس لایق نہیں ہے کہ اسے یہاں دوہرایا جائے لیکن اس بیان کی سنگینی کے پیش نظر مرکزی حکومت اور بی جے پی دونوں نے جلد ’ایکشن‘ لے کر صورتحال کو بگڑنے سے بچالیا۔ ایک سے زائد مقامات پر اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئیں۔ مبصرین کا خیال تھا کہ حکومت اور بی جے پی نے اس لئے اقدام کیا کہ عالمی سطح پر رسوائی ہورہی تھی اور عربوں کی ناراضگی کے بڑھنے کا اندیشہ تھا۔ یہ وہ عرصہ تھا جب وزیر اعظم نریندر مودی کو کئی مسلم ممالک اپنے اعلی اعزاز سے نواز چکے تھے اور کئی ایسا کرنے والے تھے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت اور بی جے پی اتنی جلد نوپور شرما کے خلاف ’ایکشن‘ نہ لیتی اگر عالمی سطح پر اور خاص طور پر مسلم دنیا میں اس پر سخت ردعمل نہ ہوا ہوتا۔ لیکن بعد میں پولیس نے کوئی خاص سرگرمی نہیں دکھائی اور نوپور کی گرفتاری نہیں ہوئی۔
گوکہ نوپور اپنے خلاف درج متعدد ایف آئی آر کو منسوخ کرانے کیلئے سپریم کورٹ بھی پہنچی تھی تاہم عدالت میں بھی اسے بنچ کے سخت تبصروں کا سامنا کرنا پڑا۔ عدالت میں اس نے یہ دعوی بھی کیا کہ اسے اپنی جان کا خطرہ ہے اور اسے دھمکیاں مل رہی ہیں۔ 28 جون 2022 کو درزی کنہیا لال کے قتل کے واقعہ پر علماء اور مسلم قائدین نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس اقدام کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہئے۔ میں نے بھی اس وقت دوران سفر ہی روزنامہ انقلاب کی طرف سے اپنا خصوصی کالم ’نوائے امروز‘ لکھا تھا جس میں واضح طور پر کنہیا لال کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ اسلام نہیں ہے۔ میں نے لکھا تھا کہ ’اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف نوپور شرما کے نفرت انگیز بیان سے مسلمانوں کے دل پہلے ہی چھلنی تھے اب اسلام کے نام پر کنہیا لال کے قتل نے ان کے سر بھی جھکا دئے ہیں۔‘
اب سوال یہی ہے کہ آج تین سال کے بعد کنہیا لال کے قتل کے بہانے یکطرفہ طور پر پورے مسلم معاشرہ کو دہشت گردی کا لبادہ اوڑھا کر پیش کرنے کا کیا مقصد ہے؟ فلم سازوں کا دعوی ہے اور جس کی تائید سینسر بورڈ بھی کر رہا ہے کہ یہ فلم ایک خاص جرم پر مبنی ہے کسی خاص معاشرہ یا فرقہ پر نہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ اس فلم میں بنارس کی گیان واپی مسجد کے ذکر کا کیا مقصد ہے؟ ا س فلم میں مغربی یوپی کے مشہور قصبہ دیوبند کے ذکر کا کیا مقصد ہے جہاں مسلمانوں کی بڑی دینی درسگاہ دارالعلوم واقع ہے؟ اس فلم میں داڑھی والے مسلمانوں اور ’مولانا مدنی‘ کے نام والے عالم دین کو دکھانے کا کیا مقصد ہے؟ اس فلم میں کسی نوجوان کو کسی ہندو کے گھر میں گوشت پھینکتے ہوئے دکھانے اور فوراً کسی مسلم نوجوان کی گرفتاری کا منظر دکھانے کا کیا مقصد ہے؟
جمعیت علماء ہند نے دعوی کیا کہ اس نے دہلی ہائی کورٹ سمیت ملک کی مختلف ہائی کورٹس میں اس فلم کے ٹریلر کی بنیاد پر عرضیاں داخل کی تھیں جس میں یہ تمام مناظر دکھائے گئے ہیں۔ جب 9 جولائی کو دہلی ہائی کورٹ میں اس کی سماعت شروع ہوئی تو مدعا علیہم میں سے ایک ’فلم سینسربورڈ‘ نے دعوی کیا کہ فلم میں ایسے تمام قابل اعتراض مناظر پہلے ہی ہٹا دئے گئے ہیں۔ سینسر بورڈ کے وکیلوں نے بتایا کہ ایسے 55 مناظر ہٹائے گئے ہیں۔
55مناظر؟ کیا 55 مناظر کچھ کم ہوتے ہیں؟ اس کے بعد تو فلم میں کچھ بھی شرانگیزی‘ فتنہ پردازی اور اشتعال انگیزی کی رمق باقی رہنی ہی نہیں چاہئے تھی۔ مولانا ارشدمدنی کے وکیل کپل سبل نے عدالت سے کہا کہ اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ جو کچھ ٹریلر میں ہے وہ فلم میں نہیں ہے؟ اس پر دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے فلم سازوں کو ہدایت دی کہ وہ آج ہی عرضی گزاروں کے وکلاء کیلئے اس فلم کی پرائیویٹ نمائش (اسکریننگ) کا انتظام کریں۔ سماعت اگلی صبح تک ملتوی ہوگئی۔ اسکریننگ کا اہتمام ہوا اور اگلی صبح جیسے ہی سماعت شروع ہوئی کپل سبل نے کہا کہ پوری فلم انتہائی نفرت انگیز ہے اور اب بھی اس میں ایک مخصوص فرقہ کے خلاف زہریلا مواد موجود ہے۔
فلم ساز بھی جانتے تھے اور سینسر بورڈ بھی کہ کپل سبل جو کہہ رہے ہیں درست کہہ رہے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے ایک کمزور چال چل کر دیکھی اور دہلی ہائی کورٹ سے کہا کہ اس قضیہ میں سپریم کورٹ میں بھی کسی نے رٹ دائر کی تھی اور سپریم کورٹ نے سماعت سے انکار کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ ’اس فلم کو ریلیز ہونے دیا جائے‘۔ عدالت کو اب مزید سماعت میں تکلف ہوا اور اس نے کپل سبل سے پوچھا کہ کیا واقعی سپریم کورٹ نے ایسا کوئی حکم جاری کیا ہے۔ کپل سبل نے فوراً سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور دو پہر میں جسٹس سدھانشو دھولیا کی قیادت والی دو رکنی بنچ کے سامنے یہ قضیہ رکھا کہ آپ کے ایک مبینہ فیصلہ کے سبب دہلی ہائی کورٹ کو ہماری عرضی پر مزید سماعت میں تکلف ہے۔ ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ نے ایسا کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا تھا۔ گو کہ قانونی خبریں نشر کرنے والی ایجنسی ’لائیولا‘ سے یہ غلطی ہوئی تھی تاہم مجھے حیرت تھی کہ جسٹس سدھانشو دھولیا کی بنچ کیسے ایسا فیصلہ کرسکتی ہے جس نے ابھی تک رٹ پر سماعت کی ہی نہیں۔
میں جسٹس دھولیا کو ایک شاندار جج کے طور پر جانتا ہوں۔ انہوں نے مسلم طالبات کے برقعہ پہننے اور حجاب اوڑھنے کے حق کو تسلیم کیا تھا لیکن ان کے ساتھی جج نے مختلف رائے دے کر معاملہ خراب کردیا تھا۔ اب یہ قضیہ تین ججوں کے سامنے ہے۔ جسٹس دھولیا نے واضح کردیا کہ اودے پور فائلز کے تعلق سے ہم نے کوئی فیصلہ نہیں دیا ہے اور ہم نے تو ہنگامی سماعت تک سے انکار کردیا ہے۔ اس کے بعد دہلی ہائی کورٹ میں تفصیلی بحث در بحث ہوئی۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں اس واقعہ کا بھی ذکر کیا۔ ہائی کورٹ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر فلم سازوں نے غیر منظور شدہ ٹریلر جاری کیا ہے تو ان کے خلاف تو مجرمانہ مقدمہ بھی قائم ہونا چاہئے۔ سینسر بورڈ نے کہا کہ ہم نے انہیں نوٹس جاری کیا ہے۔
اس سلسلہ کے کچھ نکات ابھی باقی رہ گئے ہیں۔ لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ سنیما ٹوگراف ایکٹ 1952 کی دفعہ 6 کے مطابق اگر کسی فلم پر کسی کو اعتراض ہے تو اس کیلئے پہلے مرکزی حکومت سے رجوع کرنا چاہئے۔ زیر نظر مقدمہ میں معاملہ کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے جمعیت علماء نے حکومت کی بجائے آرٹیکل 226 کے تحت دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ کپل سبل نے بنچ سے کہا کہ آپ بھلے ہی ہماری عرضی کو مسترد کردیں لیکن کم سے کم اس فلم کو دیکھ تو لیں۔ کپل سبل نے فلم ساز امت جانی کا انتہائی داغدار اور شرانگیز ماضی اور حال بھی پیش کیا۔ فلم سینسر بورڈ حکومت کا ہی نمائندہ ہوتا ہے۔ لہذا اس کی معرفت حکومت نے اس فلم کی ریلیز کو جائز قرار دینے کی بہت کوشش کی۔ فلم سازوں نے دلیل دی کہ اس فلم کے بنانے میں بہت پیسہ دائو پر لگ گیا ہے اور لوگوں نے پیشگی طور پر اس کے ایک لاکھ ٹکٹ خرید لئے ہیں اس لئے اس فلم کو 11 جولائی کو ریلیز ہونے دیا جائے۔ لیکن کپل سبل نے استدلال اور جواب الجواب میں سوالات اور الزامات کی ایسی جھڑی لگادی کہ بنچ کو غیر معمولی جرات دکھانی پڑی۔
دونوں جج 10 جولائی کی شام کو طویل بحث سننے کے بعد اٹھ کر اپنے پرائیویٹ چیمبر میں گئے اور جب مشاورت کے بعد واپس آئے تو چیف جسٹس نے تقریباً ایک گھنٹہ تک فیصلہ لکھوایا۔ عدالت نے معاملہ کی سنگینی اور حساسیت کو سمجھا اور اس فلم پر پابندی عاید کرکے حکومت کو اس کا پابند کر دیا کہ وہ عرضی گزاروں کی درخواست پر جلد از جلد غور کرکے اس پر فیصلہ کرے۔
میں اکثر کہتا رہا ہوں کہ ہماری ملی تنظیمیں جو کچھ بھی کر رہی ہیں وہ اس دور میں بہت غنیمت ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کے ججوں نے بھی جو کچھ کیا وہ غیر معمولی اور قابل تحسین ہے۔ امید تو یہی ہے کہ اب مرکزی حکومت بھی اس انتہائی اشتعال انگیز فلم کو ریلیز کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ کپل سبل نے عدالت میں درست ہی کہا کہ یہ فلم نہ فرقہ وارانہ یکجہتی کیلئے اچھی ہے اور نہ اس ملک کیلئے۔ ہمیں بھی اس ملک کی سلامتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی عزیز ہے‘ اس لئے ہم بھی حکومت ہند سے اور خاص طور پر وزیر اعظم سے گزارش کرتے ہیں کہ اس فلم کو ریلیز نہ ہونے دیا جائے۔

(شکریہ روزنامہ انقلاب دہلی)

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

سیاسی بصیرت

ٹی ایم سی رائے گنج لوک سبھا الیکشن کیوں نہیں جیت پاتی؟

تحریر: محمد شہباز عالم مصباحی رائے گنج لوک سبھا حلقہ مغربی بنگال کی ایک اہم نشست ہے جس کی سیاسی
سیاسی بصیرت

مغربی بنگال میں کیا کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے؟

محمد شہباز عالم مصباحی سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال مغربی بنگال، جو ہندوستان کی سیاست میں