حادثے کا ذمے دار کون؟ پائلٹس بے قصور یا سسٹم ناقص؟

احمد آباد میں ایئر انڈیا کا طیارہ ٹیک آف کے فوراً بعد گر کر تباہ ہو گیا، ابتدائی رپورٹ میں فیول کنٹرول سوئچز کے خودکار بند ہونے کو ممکنہ وجہ بتایا گیا، ماہر پائلٹس پر الزام مسترد۔
طیاروں میں موجود فیول فلو کنٹرول سوئچز کا استعمال پائلٹ زمین پر انجن کو شروع یا بند کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ ہوا میں بھی اگر کسی وجہ سے انجن بند ہو جائے تو انہی سوئچز کے ذریعے انجن کو دوبارہ چلایا یا مکمل بند کیا جاتا ہے۔احمد آباد میں افسوسناک فضائی حادثے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق، طیارہ ٹیک آف کے صرف تین سیکنڈ بعد دونوں فیول کنٹرول سوئچز اچانک “رن” سے “کٹ آف” کی پوزیشن میں آ گئے، جس کا مطلب ہے کہ انجن کو فیول کی فراہمی بند ہو گئی۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ یہ سوئچز غلطی سے شفٹ ہوئے یا جان بوجھ کر ایسا کیا گیا۔
سول ایوی ایشن کی وزارت کے سابق جوائنٹ سیکریٹری سنت کول کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں پائلٹوں کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا، کیوں کہ وہ انتہائی تجربہ کار تھے۔ ان کے مطابق، اگر سوئچز خودبخود بند ہوئے، تو یہ ممکنہ طور پر بوئنگ کے سسٹم میں کسی بڑی خرابی کی نشاندہی کرتا ہےاور یہی اصل وجہ معلوم ہو سکتی ہے، تاہم حتمی فیصلہ مکمل تحقیقات کے بعد ہی کیا جا سکے گا۔
حادثے کے وقت طیارہ کی کمانڈنگ پائلٹ کیپٹن سمت سبر وال کے پاس 15,638 گھنٹے، جب کہ معاون پائلٹ کلیو کُنڈر کے پاس 3,403 گھنٹے کا تجربہ تھا۔ اس لیے ماہرین کا ماننا ہے کہ مسئلہ انسانی غلطی سے زیادہ تکنیکی خرابی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ایئر انویسٹی گیشن بیورو (AAIB) کے سابق افسر، کپتان کشور چنتا نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ فیول کنٹرول سوئچز الیکٹرانک کنٹرول یونٹ میں خرابی کی وجہ سے خودکار طور پر بند ہو گئے ہوں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ایک سنجیدہ تکنیکی مسئلہ ہے۔حادثہ 12 جون کو پیش آیا، جب لندن کے لیے روانہ ہونے والی ایئر انڈیا کی پرواز، احمد آباد سے ٹیک آف کے فوری بعد ایک میڈیکل کالج کے ہاسٹل سے جا ٹکرائی۔ اس طیارے میں 242 افراد سوار تھے، جن میں سے صرف ایک شخص زندہ بچ سکا ۔
یہ افسوسناک واقعہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ فضائی سفر میں معمولی سے معمولی فنی خرابی یا کوتاہی کتنی بڑی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق، امریکی ایوی ایشن ادارے FAA کی بعض حفاظتی ہدایات کو نظرانداز کرنا ایئر انڈیا کو مہنگا پڑ گیا۔اب امید کی جا رہی ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد اصل وجوہات سامنے آئیں گی اور مستقبل میں ایسے سانحات کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں گے۔