خبرنامہ

ایلن مسک نے امریکہ میں نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کر دیا

امریکی صنعت کار ایلون مسک نے ایک نئی سیاسی جماعت ’امریکہ پارٹی‘ بنانے کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد ملک میں رائج دو جماعتی نظام، یعنی ریپبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹیوں کے سیاسی غلبے کو چیلنج کرنا ہے۔ انھوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر اس فیصلے کا اعلان کیا، جو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے پیدا ہونے والے اختلافات کے چند ہفتے بعد سامنے آیا۔ مسک کا کہنا ہے کہ یہ جماعت اُن 80 فیصد امریکیوں کی نمائندگی کرے گی جو دونوں بڑی سیاسی جماعتوں سے ناخوش ہیں۔ تاہم، یہ واضح نہیں کہ اس نئی جماعت کو فیڈرل الیکشن کمیشن میں باقاعدہ رجسٹر کرایا گیا ہے یا نہیں، اور نہ ہی انھوں نے اس کے قیادت، تنظیمی ڈھانچے یا منشور کے بارے میں کوئی تفصیلات فراہم کی ہیں۔ایلون مسک نے کہا ہے کہ فی الحال وہ دو یا تین سینیٹ سیٹوں اور آٹھ سے دس ہاؤس ڈسٹرکٹس پر توجہ مرکوز کریں گے۔ امریکہ میں ہر دو سال بعد ایوانِ نمائندگان کی تمام 435 نشستوں پر اور سینیٹ کی ایک تہائی نشستوں پر انتخابات ہوتے ہیں، جنھیں مدنظر رکھتے ہوئے مسک اپنی حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ انھوں نے ایک سابقہ پول کا حوالہ بھی دیا جو انھوں نے ‘ایکس’ پر کرایا تھا، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے ایک نئی سیاسی جماعت کے حق میں رائے دی تھی۔ اسی پول کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے اعلان کیا کہ عوام کی خواہش کے مطابق نئی جماعت اب وجود میں آ گئی ہے۔
مسک نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک اس وقت ایسی سیاسی قیادت کے شکنجے میں ہے جو غیر ضروری اخراجات اور بدعنوانی کے ذریعے نظام کو برباد کر رہی ہے، اور اُن کی جماعت عوام کو دوبارہ آزادی دلانے کے لیے قائم کی گئی ہے۔ تاہم، امریکہ کے انتخابی ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگار اس اقدام کو محض ایک سیاسی چال قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں کسی نئی جماعت کا قومی سطح پر قدم جمانا ایک نہایت طویل اور پیچیدہ عمل ہے، جس میں قانونی، انتظامی اور مالی رکاوٹیں شامل ہیں۔چند ماہرین کا خیال ہے کہ مسک یہ جماعت صرف ریپبلکن پارٹی پر دباؤ ڈالنے کے لیے بنا رہے ہیں اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ امریکہ جیسے ملک میں دو بڑی پارٹیوں کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ اُن سے مقابلہ کرنا آسان نہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق مسک کو بیلٹ ایکسس، دستخطی مہمات، ریاستی قوانین اور انتخابی اخراجات جیسے کئی مراحل سے گزرنا ہوگا، جن میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔ امریکہ میں انتخابی نظام ’ونر ٹیک آل‘ اصول پر مبنی ہے، یعنی اگر کوئی امیدوار معمولی فرق سے بھی جیت جائے تو اسے پوری نشست ملتی ہے، جس کی وجہ سے چھوٹی یا نئی جماعتوں کے لیے کامیابی حاصل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
تاریخی طور پر امریکہ میں کئی تیسرے درجے کی جماعتیں منظرِ عام پر آتی رہی ہیں لیکن انھیں قومی سطح پر خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ 1992 میں ارب پتی کاروباری شخصیت راس پیروٹ نے 19 فیصد عوامی ووٹ حاصل کیے تھے لیکن وہ کوئی بھی الیکٹورل ووٹ حاصل نہ کر سکے۔ 1968 میں جارج ویلیس نے جنوبی ریاستوں سے کچھ الیکٹورل ووٹ ضرور حاصل کیے تھے، تاہم یہ کامیابیاں عارضی ثابت ہوئیں۔ایلون مسک ماضی میں ریپبلکن پارٹی کے حامی رہے ہیں اور 2024 کے انتخابات میں انھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے 250 ملین ڈالر کی خطیر رقم فراہم کی تھی۔ اس کے بعد انھیں ’ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی‘ کا سربراہ بنایا گیا، جہاں ان کا کام حکومتی اخراجات میں کمی کی تجاویز دینا تھا۔ لیکن مئی میں انھوں نے عہدہ چھوڑ دیا اور ٹرمپ کی معاشی پالیسیوں پر شدید تنقید شروع کر دی، جس کے بعد دونوں کے تعلقات خراب ہو گئے۔ ٹرمپ نے بعد ازاں مسک کی کمپنیوں، جیسے ٹیسلا اور اسپیس ایکس، کی سبسڈی ختم کرنے کی دھمکی دی۔
امریکی اور عالمی میڈیا اس کشیدگی کو ہی ’امریکہ پارٹی‘ کے اعلان کی بڑی وجہ قرار دے رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مسک کے پاس دولت تو ہے لیکن سیاسی استقامت اور عوامی تنظیم سازی کی صلاحیت کسی جماعت کی پائیداری کے لیے لازمی ہوتی ہے، جو بظاہر اُن کے پاس نہیں ہے۔ اس کے باوجود موجودہ سیاسی نظام سے عوام کی بڑھتی ہوئی ناراضگی مسک کو ایک موقع فراہم کر سکتی ہے۔نئی جماعت بنانے کے لیے امریکہ میں متعدد قانونی تقاضے پورے کرنا لازمی ہیں، جن میں پارٹی کا نام، منشور، عہدے داران کی تقرری، فنڈنگ کے ذرائع، ریاستی سطح پر رجسٹریشن، اور فیڈرل الیکشن کمیشن میں اندراج شامل ہے۔ اس کے علاوہ مختلف ریاستوں میں امیدواروں کے بیلٹ پر آنے کے لیے ہزاروں شہریوں کے دستخط، سابقہ انتخابات میں مخصوص ووٹ فیصد یا دیگر سخت شرائط پوری کرنی پڑتی ہیں۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک مسک ان بنیادی تقاضوں کو پورا نہیں کرتے، اُن کی جماعت کا مستقبل غیر یقینی رہے گا۔ تاہم ان کا سرمایہ، شہرت اور سوشل میڈیا پر اثرورسوخ مستقبل میں روایتی سیاست پر کچھ حد تک اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اگرچہ امریکہ میں تیسری جماعت کا کامیاب ہونا ایک مشکل ترین عمل ہے، لیکن بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی اور موجودہ سیاسی جماعتوں سے مایوسی ممکنہ طور پر ’امریکہ پارٹی‘ کو کچھ مخصوص علاقوں میں کامیابی دلا سکتی ہے۔ پھر بھی قومی سطح پر مضبوط متبادل بننے کے لیے ایلون مسک کو طویل سیاسی جدوجہد اور تنظیم سازی کی ضرورت ہوگی۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خبرنامہ

لاس اینجلس میں جنگل کی آگ سے بڑے پیمانے پر تباہی، اموات کی تعداد 24ہوئی، امدادی کوششیں جاری

امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لا اینجلس میں ایک ہفتے سے لگی بھیانک آگ مزید 8 جانیں نگل
خبرنامہ

چین کبھی بھی امریکہ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا

واشنگٹن(ایجنسیاں) صدر بائیڈن نے پیر کو خارجہ پالیسی پر اپنی آخری تقریر میں بڑا دعویٰ کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر