دو دہائیوں بعدایک اسٹیج پرراج اورادھو ٹھاکرے،مراٹھی شناخت پر زور

ادھو اور راج ٹھاکرے بیس سال بعد ایک اسٹیج پر آئے، ہندی کو لازمی زبان بنانے کی مخالفت کرتے ہوئے مراٹھی شناخت کے تحفظ کا پیغام دیا۔
مہاراشٹر کی سیاست میں ہفتہ کا دن تاریخی ثابت ہوا، جب تقریباً بیس سال بعد شیوسینا (ادھو بال ٹھاکرے) کے سربراہ ادھو ٹھاکرے اور ان کے کزن راج ٹھاکرے ایک ساتھ اسٹیج پر نظر آئے۔ دونوں قائدین ممبئی میں منعقدہ ’آواز مراٹھیچا‘ (مراٹھی کی آواز) پروگرام میں شریک ہوئے، جو شیوسینا (یو بی ٹی) اور مہاراشٹر نو نرمان سینا (ایم این ایس) کی مشترکہ پہل تھی۔یہ اتحاد اس وقت سامنے آیا جب ریاستی حکومت نے حالیہ فیصلے کے تحت مہاراشٹر کے پرائمری اسکولوں میں ہندی کو تیسری زبان کے طور پر لازمی بنانے کی تجویز واپس لی۔ اس متنازع پالیسی کے خلاف دونوں لیڈروں نے آواز بلند کی تھی اور اس پروگرام کو مراٹھی زبان کی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے راج ٹھاکرے نے کہا کہ جو کام بال ٹھاکرے نہیں کر پائے، وہ موجودہ نائب وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس نے کر دکھایا۔ انھوں نے کہا، ’’اگر آج ہم ایک ساتھ ہیں تو اس کی بڑی وجہ وہی ہیں۔‘‘ راج کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس سڑکوں کی طاقت ہے، جب کہ ان کے پاس اسمبلی کی طاقت ہے۔انھوں نے خبردار کیا کہ ہمیں کمزور نہ سمجھا جائے۔ راج نے زور دے کر کہا کہ ہندی بولنے والے یہاں روزگار کی تلاش میں آتے ہیں کیوں کہ ہندی بولنے والی ریاستوں کی معیشت کمزور ہے۔ ہم ہندی کو برا نہیں مانتے، مگر اسے تھوپنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ بچوں پر زبان تھوپنا مناسب نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مراٹھا تاریخ عظیم رہی ہے اور ممبئی کو مہاراشٹر سے الگ کرنے کی سازش برداشت نہیں کی جائے گی۔
راج ٹھاکرے نے مزید کہا کہ اگر ہمارے بچے انگلش میڈیم اسکول میں پڑھتے ہیں تو مراٹھی زبان پر سوال کیوں؟ کیا لال کرشن اڈوانی نے بھی مشنری اسکول میں پڑھائی نہیں کی؟ پھر ان کے ہندوتو پر سوال کیوں نہیں؟ انھوں نے پوچھا کہ آخر تیسری زبان کا یہ فارمولا کہاں سے آیا؟ اور صرف مہاراشٹر میں ہی کیوں نافذ ہو رہا ہے؟ جب مہاراشٹر جاگتا ہے، تو پورا ملک سنتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مراٹھا وراثت ہندی سے بھی پرانی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم خاموش ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ڈرتے ہیں۔ راج ٹھاکرے نے الزام لگایا کہ اصل ایجنڈا ممبئی کو مہاراشٹر سے الگ کرنا ہےاور ہندی زبان کا مسئلہ صرف ایک بہانہ ہے۔