بہار میں ووٹر فہرست کی خصوصی جانچ پرسیاسی طوفان،اپوزیشن برہم

بہار میں ووٹر فہرست کی جانچ پر اپوزیشن نے ووٹ چھیننے کا الزام لگایا، بی جے پی نے معمول کی کارروائی کہا۔
بہار میں انتخابی کمیشن کی جانب سے ووٹروں کی فہرست کی خصوصی اور گہری جانچ (Special Intensive Revision یا SIR) کا عمل جاری ہے، جس پر سیاسی کشمکش تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ بدھ کے روز اپوزیشن اتحاد “انڈیا” میں شامل دس جماعتوں نے دہلی میں چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار سے ملاقات کی اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
بہار کانگریس کے صدر راجیش رام نے الیکشن کمیشن پر الزام عائد کیا کہ ایسا لگتا ہے جیسے کمیشن نے طے کر لیا ہے کہ ریاست کے 20 فیصد ووٹرز کو ان کے حقِ رائے دہی سے محروم کرنا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ووٹرز زیادہ تر غریب، دلت، پسماندہ اور اقلیتی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں — جو عموماً ان کا حمایتی ووٹ بینک ہوتا ہے۔
الزام: NRC کی طرز پر خفیہ عمل
مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بھی الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اشاروں پر کام کر رہا ہے اور درپردہ این آر سی (شہریت کی تصدیق کا عمل) نافذ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ SIR مہم صرف بہار میں کیوں؟ اگر یہ محض فہرست کو درست کرنے کا کام ہوتا تو یہ لوک سبھا انتخابات کے فوراً بعد پورے ملک میں ہوتا۔ بہار کو ہی کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟
الیکشن کمیشن کا مؤقف اور دستاویزی تقاضے
الیکشن کمیشن نے وضاحت دی ہے کہ ہر انتخاب سے قبل ووٹر لسٹ کی جانچ اور تجدید قانونی طور پر لازمی ہے اور یہ کام کئی دہائیوں سے ہوتا آ رہا ہے۔
تاہم، اس بار الیکشن کمیشن نے ووٹرز کے لیے مختلف زمرے بنا دیے ہیں:
1 جولائی 1987 سے پہلے پیدا ہونے والے افراد: صرف اپنا شناختی دستاویز دینا ہوگا۔
1 جولائی 1987 سے 2 دسمبر 2004 کے درمیان پیدا ہونے والے افراد: اپنا اور کسی ایک والد یا سرپرست کا دستاویز دینا ہوگا۔
2 دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہونے والے افراد: اپنا اور دونوں والدین کے دستاویز لازمی ہوں گے۔
لیکن کمیشن نے ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا ہے کہ جن افراد کا نام 2003 کی ووٹر لسٹ میں ہے، انھیں صرف اس لسٹ کی فوٹو کاپی دینا ہوگی، والدین کے دستاویز کی ضرورت نہیں ہے۔
دستاویزات کی پیچیدگی اور اپوزیشن کا ردعمل
اپوزیشن رہنما تیجسوی یادو نے اس سارے عمل کو “جمہوریت پر حملہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ کروڑوں نوجوانوں کو اپنی شہریت ثابت کرنی پڑے گی، جبکہ 2001-2005 کے درمیان پیدا ہونے والے افراد میں سے صرف 2.8 فیصد کے پاس پیدائش کا سرٹیفکیٹ ہے۔
بائیں بازو کے رہنما دیپانکر بھٹاچاریہ نے اسے “غریبوں کی ووٹ بندی” کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ جولائی میں بہار کے دیہی مزدور باہر کام پر جاتے ہیں، اور اسی دوران یہ عمل کئی غریبوں کو ووٹر لسٹ سے نکالنے کا ذریعہ بن جائے گا۔
این ڈی اے کے اتحادیوں میں بے چینی؟
بظاہر بی جے پی کے اتحادی جماعتیں خاموش ہیں، مگر اندرونی طور پر انہیں بھی ان تقاضوں پر تشویش ہے کیونکہ ان کے ووٹ بینک میں اکثریت ان طبقات کی ہے جن کے لیے یہ دستاویزات حاصل کرنا مشکل ہے۔مثال کے طور پر، جنتا دل یونائیٹڈ (JDU) کو پسماندہ طبقات، چیراغ پاسوان کی ایل جے پی (رام) کو پاسوان، جیتن رام مانجھی کی پارٹی کو ‘موسہر’، اور اپندر کشواہا کی رالومو کو کشواہا طبقے کی حمایت حاصل ہے۔ ان طبقات کے پاس ضروری دستاویزات کی کمی عام مسئلہ ہے۔
بی جے پی کے کچھ اتحادیوں نے یا تو لاعلمی ظاہر کی یا کہا کہ وہ “انتظار کرو اور دیکھو” کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔ مانجھی کے بیٹے سنتوش سمن نے کہا کہ اگر ان کے موسہر کمیونٹی کو کسی دشواری کا سامنا ہوا تو وہ سب سے پہلے اس عمل کی مخالفت کریں گے۔
سیاسی تجزیہ اور ممکنہ اثرات
معروف تجزیہ کار یوگندر یادو نے کہا کہ SIR کا فائدہ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو مل سکتا ہے کیونکہ دستاویز رکھنے والے ووٹرز کی اکثریت ان کی حمایت میں ووٹ ڈالتی ہے۔ جبکہ جن کے پاس دستاویزات نہیں ہیں، وہ عام طور پر اپوزیشن کو ووٹ دیتے ہیں۔انھوں نے اس عمل کو “نوٹ بندی اور لاک ڈاؤن کے بعد ووٹ بندی” قرار دیا۔ ان کے مطابق، ہندوستان میں ووٹر لسٹ ہمیشہ فراخ دلانہ اصولوں پر تیار کی جاتی رہی ہے تاکہ کوئی شہری پیچھے نہ رہ جائے، لیکن اس نئے عمل سے لاکھوں افراد کا حقِ رائے دہی خطرے میں ہے۔